چین کی سائنس و ٹیکنالوجی کی صورتحال

2018-03-12 15:50:30
شیئر:

چین کی سائنس و ٹیکنالوجی کی صورتحال

چین کی سائنس و ٹیکنالوجی کی صورتحال

سائنس و ٹیکنالوجی کے سہارے  ملک و قوم  کی ترقی  چین کی قومی حکمت عملی ہے۔ دو ہزار بارہ میں چین میں سائنس و ٹیکنالوجی  کے حوالے سے تحقیق و ریسرچ اور دریافت  پر کل دس کھرب یوان   کی رقم  صرف  کی  گئی جو اپنی مالیت کے اعتبار سے  دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر  رہی ۔

چینی حکومت  ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کی سرگرمیوں کی قومی منصوبہ بندی کے ذریعے رہانمائی کرتی ہے۔چین کے قومی سطح کے سائنسی منصوبوں میں بنیادی سائنسی  تحقیق، نئی اور اعلیٰ سائنس و ٹیکنالوجی کی دریافت، زراعت، خلائی صنعت اور قومی دفاع سے متعلق  سائنسی تحقیق  کے منصوبے  شامل ہیں۔چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر اہتمام  متعلقہ ماہرین یہ منصوبے مرتب کرتے ہیں اور   بڑے شفاف انداز میں منصوبے کے انچارج اداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے اورمنتخب  تحقیقی ادار ے  اس پروجیکٹ  کے لئے مختض کی جانے والی رقم حاصل کر سکتے ہیں۔

برسوں کی کوششوں کے بعد اس وقت چین میں سائنس و ٹیکنالوجی کا جامع تحقیقی  نظام وجود میں آ  گیا ہے۔ کچھ بنیادی ، اعلیٰ اورنئے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کی دریافت کا معیار دنیا بھرمیں پیش پیش ہے۔مثلاً  خلائی سائنس، سوپر کمپیوٹر ٹیکنالوجی وغیرہ۔

سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے چین کی قومی منصوبہ بندی  بنیادی سائنسی تحقیقات  سے متعلق  چین کے قومی منصوبے کا آغاز  مارچ سنہ انیس سو ستانوے سے  ہوا ۔اس لئے اس منصوبے کو نو سات تین منصوبہ کہا جاتا ہے۔اس منصوبے میں زراعت، توانائی، انفارمیشن، وسائل و ماحول ، آبادی،  طب و صحت سمیت قومی معیشت اور معاشرتی ترقی سے  متعلقہ اہم  بنیادی سائنسی تحقیقات کے پروجیکٹ شامل ہیں۔

حالیہ برسوں سے چینی حکومت نے اس منصوبے کے لئے اربوں  یوان کی رقوم مختص کی ہیں جس کے تحت  تین سو سے زائد  پروجیکٹس عمل میں لائے گئے۔ان میں سے نامومیٹر،  علم الانصاب اور قدیم حیاتیاتی سا ئنس کے شعبوں  میں    نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

نئی جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیقات سے متعلق  چین کے قومی منصوبے کا آغاز مارچ  انیس سو چھیاسی میں ہوا اس لئے اس منصوبے کو آٹھ چھ تین کا منصوبہ بھی کہا جاتا ہے۔

چین کے اس قومی سائنسی ترقیاتی منصوبے میں حیاتیاتی سائنس، خلائی سائنس،انفارمیشن ٹیکنالوجی، لیزر  ٹیکنالوجی ، نئی توانائی کی ٹیکنالوجی اور نیو میٹیریل  سمیت سات شعبوں  کے پندرہ پروجیکٹس  شامل ہیں۔

آٹھ چھ تین ،منصوبے کے ذریعے  چین کے  مخصوص حالات کے مطابق جدید اور نئی سا ئنس و ٹیکنالوجی  کی دریافت اور ترقی کا جامع نظام وجود میں آیا جس سے  اعلیٰ معیار کے  سائنسدانوں کی  تربیت  کا سلسلہ قائم ہو گیا ۔

زرعی سا ئنس  و ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کا قومی منصوبہ

اس منصوبے کو  چنگاری منصوبہ کہتے  ہیں جس کا آغاز انیس سو  چھیاسی میں ہوا۔اس منصوبے کے تحت چینی سائنسدانوں نے بہت زیادہ جدید زرعی تیکنیکس دریافت کیں  جو چین کے دیہات میں وسیع پیمانے پر استعمال کی گئیں اور ان کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ اس  جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے استعمال سے چین کی زراعت کو بڑی حد  تک فروغ ملا اور کسانوں کو زبردست فوائد حاصل ہوئے۔

انسان بردار خلائی پرواز کا منصوبہ

چین کی  انسان بردار خلائی پرواز کا منصوبہ سنہ انیس سو بانوے میں شروع ہوا۔یہ منصوبہ تین مرحلوں پر مشتمل تھا  یعنی پہلا  مرحلہ یہ کہ چینی خلابازوں کو خلا میں پہنچایا جائے، دوسرے مرحلے میں خلا میں مختلف خلائی جہازوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنا اور   اور کم سے کم وقت میں  انسان بردار خلائی لیبارٹری لانچ کرنا   اور پھر تیسرے مرحلے میں طویل المدت  انسان بردار خلائی لیبارٹری کی لانچ کا منصوبہ،  جس کے بعد  خلائی سائنسی تحقیقات  شروع  کی  جائیں گی ۔

منصوبے کے مطابق دو ہزار بیس سے  قبل چین باقا عدہ طور پر  مستقل انسان بردار خلائی اسٹیشن قائم کریگا۔

 

چاند کی تحقیقات سے متعلق چین کا خلائی منصوبہ

چین کا یہ منصوبہ بھی تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔یعنی پہلے مرحلے میں  چاند کے گرد گردش کرنے والا تحقیقاتی مصنوعی سیارہ لانچ کیا جانا ہے۔اس کے بعد چاند پر  لینڈنگ کرنے والی  چاند گاڑی بھیجی جائیگی  اور تیسرے مرحلے میں  چاند  کی سطح پر سائنسی تحقیقات  کی جائیں گی اور   چاند کی مٹی اور پتھروں کے نمونے  زمین پر لائے جائیں گے۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون پر مبنی پروجیکٹس

بین الاقوامی تعاون اور رابطے ،چین میں سائنس و ٹیکنالوجی کی  تحقیقات کے سلسلے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ چینی سائنسدا نوں کی ایک کثیر تعداد بیرونی ملکوں میں مطالعےاور سائنسی تحقیقات میں مصروف ہے تو دوسری طرف چین کے بنیادی اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے تحقیقاتی پروجیکٹس  میں غیرملکی سائنسی  تحقیقی اداروں کی شمولیت کا خیرمقدم بھی کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے سائنسی  تحقیق کے اہم بین الاقوامی پروجیکٹس  میں چینی سائنسدان بھی مثبت طور پر حصہ لے رہے ہیں ان میں ہیومن جینوم پروجیکٹ اور گیلیلیو نامی خلائی دریافت کا منصوبہ شامل ہیں۔

 

چین کے سائنسی  تحقیق  کےادارے

چین میں دو اقسام کے  سائنسی  تحقیق  کےادارے ہیں یعنی خود مختار ادارے اور  اعلیٰ تعلیمی اداروں یا صنعتی و کاروباری اداروں کے ماتحت ریسرچ ادارے۔ان میں سے  خود مختار اداروں کی تعداد دو ہزار ہے ۔یہ تحقیقی ادارے بنیادی سائنس ،ایپلی کیشن سائنس اور سوشل سائنس کے  شعبوں میں تحقیقات کرتےہیں ۔ بیشتر بنیادی سائنسی  تحقیق کرنے والے ادارے چین کی سائنس اکیڈمی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ماتحت  ہیں جبکہ  ایپلی کیشن سائنسی  تحقیق کے اکثرادارے  متعلقہ صعنتوں  کے  انچارج انتظامی محکموں کے ماتحت کام کرتے ہیں۔

سنہ انیس سو انچاس میں قائم ہونے والی چین کی سائنس اکیڈمی چین کا سب سے بڑا  سائنسی محکمہ ہے ۔ اکیڈمی کے ماتحت ایک سو سے زائد ریسرچ انسٹیٹیوٹس ، چار سو سائنسی و ٹیکنالوجیکل صعنتی و کاروباری ادارے  اور تین یونیورسٹیاں قائم ہیں۔چینی سائنس اکیڈمی کے  اسٹاف کے دانشور  چین کے  سائنس وٹیکنالوجی کے  شعبوں میں اعلیٰ ترین اعزاز  کے حامل ہیں۔

چین میں قدرتی سائنس کی تحقیقات اور  انسانی تہذیب و ثقافت کی سائنسی تحقیق  کے شعبے میں یونیورسٹیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں  ۔ مذکورہ بالا چھین خوا   یونیورسٹی ، بیجنگ یونیورسٹی ، جے جانگ یونیورسٹی  اور فوتان یونیورسٹی  سمیت متعدد اعلیٰ تعلیمی ادارے  اس سلسلے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

علاوہ ازیں چینی حکومت نے  متعلقہ صنعتی و کاروباری اداروں میں ریسرچ سینٹرز کی تعمیر  کے  سلسلے میں سلسلہ وار اقدامات اختیار  کئے ہیں  تاکہ  چین کی  تخلیقی صلاحیت کو  بڑ ھایا جا سکے ۔