چار سال قبل صدر شی جن پھنگ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کا دورہ کرنے کے موقع پر ایک تقریر کی جس میں انہوں نے چینی سفارت کاری کے سب سے بنیادی تصور یعنی "بنی نوعِ انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر " کے تصور کو واضح انداز میں بیان کرتے ہوئے اسے بڑے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کا حل تجویز کیا۔ اس تصور کو عالمی سطح پر بے حد توجہ حاصل ہوئی ۔ خاص طور پر کووڈ - ۱۹ کی اس ہولناک وبا نے دنیا کو اس تصور کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا ہے ۔ اپنے سالِ نو کے پیغام میں بھی شی جن پھنگ نے ایک ہم نصیب معاشرے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حالیہ صورتِ حال میں اس کی افادیت کے اجاگر ہونے کا تذکرہ کیا تھا۔ چار سال قبل ، عالمی معیشت کی بدحالی اور پریشان کن بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر ،شی جن پھنگ نے انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل اور تمام تر ثمرات میں شراکت کے تصور کو پیش کیا تھا ۔ بنی نوع انسان کو درپیش حفاظتی چیلنجوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے خاص طور پر بڑی متعدی بیماریوں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے اہم کردار کا ذکر کرتے ہوئے وبائی امراض کی نگرانی ، انفارمیشن مواصلات ، تجربات کے تبادلے ، اور ٹیکنالوجی شیئرنگ کو تقویت دینے پر زور دیا تھا ۔ موجودہ وبا کے دوران صدر شی جن پھنگ نے متعدد مواقع پر کہا کہ چین ، وبا سے بچاو اور اس پر قابو پانے سے متعلق تجربات ،تشخیص اور علاج کی ٹیکنالوجی کو دوسرے ممالک کے ساتھ بانٹنے، ضروری طبی سامان کی فراہمی اور عالمی سطح پر چین کی ویکسین کو عوامی مصنوعات کی فہرست میں شامل کرنے نیز عالمی برادری خصوصاً ترقی پزیر ممالک کو صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا جواب دینے اور صحت کے معاشرے کی تشکیل کو فروغ دینے کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مدد دینے کے لیے تیار ہے ۔بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کا یہ تصور عالمی طور پر سراہا گیا اور یہ اقوام متحدہ کی اہم دستاویزات میں درج کیا گیا ہے۔