تیرہ ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بیس سالہ افغان جنگ پر کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کی سماعت میں شرکت کی ۔انتھونی بلنکن نے دورانِ سماعت بتایا کہ جو بائیڈن نے ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان طےشدہ فوجی انخلا کے اسی سمجھوتے کو جاری رکھا ہے جس کے تحت ٹرمپ حکومت نے اس وقت کی افغان حکومت کو ۵۰۰۰ طالبان قیدیوں کو رہا کرنے اور امریکی فوجیوں کی تعداد کو کم کر کے ۲۵۰۰ تک کرنے کا طے کیا تھا ،جب کہ طالبان نے امریکی اور اتحادی افواج پر حملے بند کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت کےساتھ سمجھوتہ طے پانے کے بعد طالبان نے دور دراز علاقوں میں چیک پوسٹس،دیہات اور شہروں تک جانے والی اہم شاہراہوں پر حملے جاری رکھے ۔اگر صدر جو بائیڈن اس سمجھوتے پر عمل پیرا نہ رہتے تو طالبان، امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیتے۔ بلنکن نے تسلیم کیا کہ ہم نے بدترین صورتِ حال میں بھی کبھی اس بات کا تصور نہیں کیا تھا کہ افغان سرکاری فوج امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا سے قبل ہی مکمل شکست تسلیم کر لے گی۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت افغانستان میں رہنے والے امریکی باشندوں کے ساتھ رابطہ برقرار رکھے گی اور افغانستان سے نکلنے کی خواہش مند امریکیوں اور دیگر افغانیوں کو وہاں سےنکلنے میں مدد فراہم کرے گی۔