

2021 اختتام پزیر ہو رہا ہے ، لیکن دنیا اب بھی پرامن نہیں ہے۔ میں اکثر اپنے آپ سے پوچھتا ہوں، کیا یہ دنیا ٹھیک ہو جائے گی؟


نا تواں جسم اندھی گولی سے زخمی ہے، اور ادنیٰ سے دماغ نے بے شمار تنازعے اور جدائیاں دیکھی ہیں۔


نیلے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کل کے لیے دعائیں مانگ رہا ہوں ، لیکن بے بسی کے عالم میں ایک شکستہ دیوار میں پھنس چکا ہوں۔
نئے سال کی گھنٹی بجنے والی ہے، اور تارک وطن اپنے آبائی شہروں کو واپس لوٹنے کے لیے بے تاب ہیں۔ میں دنیا سے پوچھتا ہوں کیا ہمارا وطن اچھا ہو گا؟


بچے قدیم اشعار پڑھتے ہیں: ہمارا وطن کبھی تباہ نہ ہو، ماضی کے مصائب سے نجات پا کر پروان چڑھے، اور روشنی کے لیے گہرے علم کا گہوارہ بنے ۔


انسانیت ایک بڑا خاندان ہے۔ صرف محبت سے ہی ہم مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سامنے راستہ کتنا ہی ناہموار کیوں نہ ہو، ہمارے دل جڑے ہوئے ہوں تو بلا آخر ہم معجزے تخلیق کریں گے۔