حیاتیا تی تنوع

2018-04-28 11:06:09
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

حیاتیا تی تنوع

حیاتیا تی تنوع

نباتات و حیوانات کی اقسام

چین دنیا بھرمیں سب سے متنوع حیاتیات رکھنے والے ممالک میں شامل ہے ۔ اس اعتبار سے یہاں ریڑھ کی ہڈی والےمختلف  جانوروں کی چھ ہزار تین سو سینتالیس اقسام پائی جاتی ہیں جو پوری  دنیا میں پائے جانے والےمتعلقہ جانوروں    کا دس فیصد ہے ۔ اسی طرح سے اگر زمین پر چلنے والے ریڈھ کی ہڈی کے حامل جانوروں کی  اقسام کی بات کی جائے تو  ایک اعداد و شمار کے مطابق تقریباً چار سو چھہتر  اقسام صرف چین ہی میں پائی جاتی ہیں ۔نباتات کے حوالے سے بھی خطہ چین  خصوصیت کا حامل ہے۔

چین میں اعلیٰ پودوں کی تقریباً تیس ہزار سے زائد  اقسام پائی جاتی ہیں  اور یہ شرح ملائیشیا اوربرازیل کے  بعد پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے ۔

چین میں نہ صرف انواع و اقسام کے جنگلی نباتات و حیوانات موجود ہیں بلکہ مصنوعی پودوں اور پالتو جانوروں کی بھی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں ۔ اس اعتبار سےچین کو دنیا بھرمیں نباتات و حیوانات کے وسائل کا قدرتی جینیاتی ذخیرہ  تصور کیا جاتا ہے۔

 

معدوم ہوتے نباتات و حیوانات

اس حقیقت سے قطع  نظر کہ چین میں جنگلی نباتات و حیوانات کی متعدد اقسام اب بھی  پائی جاتی ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ جنگلات میں  کمی  کے باعث  جنگلی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ جس کی وجہ سے نباتات و حیوانات کی نایاب اقسام اب معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ جنگلات میں کمی ہے تو دوسری طرف جانوروں کے لئے درکارمناسب افزائیشی ماحول کا خاتمہ بھی ہے ۔ ابتدائی اعداد و شمار  کے مطابق اس وقت چین میں تقریباً دو سو خاص قسم کی  حیاتیاتی انواع معدوم ہو  چکی ہیں  یہ تعداد معدوم ہوتے جانوروں اور پودوں کی کل  اقسام کا پندرہ سے بیس فیصد ہے ۔ اس معدوم ہو تی جنگلی حیات میں بارہ سنگا ، جنگلی گھوڑا، اور اونچی ناک والا  مرغ شامل ہیں  ۔

جانوروں میں پانڈا،چینی دریائی ڈولفن ، جنوبی چین کے شیر سمیت بیس سے زائد نایاب جانور معدوم  ہوتے جا رہے ہیں ۔اس کےعلاوہ چھ ہزار اقسام کی نباتاتی انواع کوبھی اپنی بقا کا خطرہ ہے۔

 

سرحد پارسے آنے والی حیاتیاتی اور نباتاتی انواع 

بیرونی ممالک سے آنے والی کچھ حیاتیاتی اور نباتاتی انواع جب نئے ماحول میں داخل ہو تی  ہیں ، تو  وہ بڑی  تیزی سے  پھیلتی ہیں  جس سے  نہ صرف ماحول کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ  انسانی صحت اور اقتصادی ترقی پر  بھی منفی  اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چین دنیا بھر میں  باہرسے آنے والی حیاتیاتی اور نباتاتی انواع سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔نامکمل اعداد و شمار کے مطابق کل پانچ سو انتیس بیرونی حیاتیاتی انواع چین کے چونتیس صوبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

 

آلودگی کی روک تھام

چین نے گیارہویں پنچ سالہ ترقیاتی منصو بے پر عمل  درآمدکے دوران آبی آلودگی سے نمٹنے کے لئے تین کھرب چینی یوان مختص کئے جس سےاہم علاقوں میں اس مسلے سے نمٹنے میں مثبت پیش رفت ہوئی۔سال دو ہزار گیارہ سے دو ہزار پندرہ تک بارہویں ترقیاتی منصوبے میں چین نے پانچ کھرب چینی یوان مختص کئے ہیں۔ اس کے علاوہ شدید  آلودہ دریا ئی یا جھیل  کےپانی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے علاوہ کچھ  اعلیٰ کوالٹی والے پانی کے تحفظ پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لئےپورے ملک میں فضائی کوالٹی کی نگرانی  کا  نظام  شروع  کیا گیا ۔سال دو ہزار بارہ میں چین کی ریاستی کونسل نے  ہوا کی  کوالٹی کے نئے معیار  مقررکئے جن میں پی ایم دو اعشاریہ پانچ (دو اعشاریہ پانچ میکرون سے کم یا برابر کے قطر دائرے والا ذرہ) کے اوسط ارتکاز کی حد، ایک دن میں آٹھ گھنٹے کے دوران اوزون کے ارتکاز کی حد شامل کی گئی ہے ۔ جبکہ پی ایم دس ، نائٹروجن ڈائی آ کسائیڈ سمیت دیگر آلودہ مواد کے ارتکاز کی حد کو کم کیا  گیا ہے۔

ستمبر دو ہزار تیرہ میں ریاستی کونسل نے فضائی آلودگی سے  نمٹنے کے لئے اپنا پہلا لائحہ عمل مرتب کیا جس میں طے کیا گیا کہ پانچ برسوں میں فضائی معیار  کو مجموعی طور پر بہتر بنایا جائے گا۔اس سلسلے میں سب سے پہلےموٹرگاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کی آلودگی کو کم  کرنےکی کوششیں کی  جارہی ہیں۔ستمبر دو ہزار تیرہ میں چین کی وزارت ماحولیاتی تحفظ نے ہلکی گاڑ یوں سےدھوئیں کے اخراج کا معیار  مقررکیا۔

 

جنگلات کے وسائل کا تحٖفظ

گزشتہ صدی کے پچاس کے عشرے سے چین نے مصنوعی جنگلات اگانے  پر توجہ مرکوز کی اور ناقابل یقین اہداف حاصل کئے۔اس وقت چین میں مصنوعی جنگلات کا رقبہ بیس اعشاریہ تین چھ فیصد کی شرح سے  چھ کروڑ بیس لاکھ ہیکٹر ہے جو دنیا بھرمیں پہلے نمبر پر ہے۔

جنگلات کے وسائل کے تحفظ کے لئے چین نے  سنہ دو ہزار تین سے کھیتوں کی دوبارہ جنگل کاری کے ضوابط نافذ کئے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں دو ہزار چھ تک تین کروڑ بیس لاکھ ہیکٹر پر مشتمل کھیتوں کو دوبارہ جنگلات  میں تبدیل کیا گیا ۔ قدرتی  جنگلات کی بڑھوتری اور تحفظ  میں دوسرا موثرقدم  سنہ انیس سو اٹھانوے سے نافذالعمل منصوبہ اور پالیسی ہے  کہ جس کے تحت قدرتی جنگلات سے  درختوں  کی کٹائی کو ممنوع     قرار دیا گیا ہے ۔ جنگلات کے تحفظ میں  حوصلہ افزا نتائج کے پیش نظر سنہ دو ہزار دس میں ریاستی کونسل نے قدرتی جنگلات کے وسائل کے تحفظ کے دوسرے منصوبے پر  عمل در آمد کا فیصلہ کیا۔

چین میں جنگلات کی مستحکم طور پر بڑھوتری  کے لئے  پائیدار ترقیاتی  حکمت عملی پر مبنی جنگلات کی اسٹریٹجک تحقیقات کے تحت  دو ہزار پچاس تک چین میں جنگلات کے رقبے کی شرح اٹھائیس فیصد تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔

 

دلدلی علاقے کا تحفظ

چینی حکومت نے سنہ انیس سو بانوے میں دلدلی علاقے کے تحفظ کے حوالے سے  بین الاقوامی معاہدے میں شمولیت اختیار کی ۔ سنہ دو ہزار گیارہ تک چین نے دلدلی علاقے کے چھ سو چودہ قدرتی طورپر محفوظ علاقوں کا تعین کیا جن میں قومی سطح کے اکیانوے قدرتی طور پر محفوظ علاقے شامل ہیں۔سنہ دو ہزار بارہ تک چین کے  اکتالیس دلد لی علاقے اہم بین الاقوامی فہرست میں شامل کئے گئے جن کا کل رقبہ اڑتیس لاکھ ہیکٹر ہے ۔

یکم مئی سنہ دو ہزار تیرہ سے چین نے دلدلی علاقے کے تحفظ  اور انتظام  کے حو الے سے ضوابط پر عمل درآمد شروع کیا گیا۔

 

صحرازدگی کی روک تھام

چینی حکومت نے صحرازدگی کی روک تھام کو ایک اہم قومی پالیسی قرار دیا ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ ہر سال کئی ارب امریکی ڈالرز اس ضمن میں مختص کئے جاتے ہیں ۔اس سلسلے میں حکومت نجی اداروں یا شخصیات کی حوصلہ افزائی   بھی  کرتی ہے۔ درحقیقت چینی  حکومت کے نزدیک   صحرازدگی سے نمٹنا غربت کا خاتمہ ہے اس لئے صحرا زدگی کی روک تھام   اور اقتصادی ترقی کو باہمی طور پر مربوط کیا گیا  ہے۔اس وقت صحرا میں حیاتیاتی نظام بخوبی ترقی کے راستے پر گامزن  ہے۔ریتلی زمین کے رقبے میں سال بہ سال کمی آ رہی  ہےاورحیاتیاتی تنوع میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

مارچ سنہ دو ہزار تیرہ میں صحرازدگی کی روک تھام اور اس پر  قابو پانے کے حوالے سےمنصوبہ بندی پر عمل درآمد شروع کیا گیا ۔ اس کے مطابق اگلے مرحلے میں شمالی چین میں سبز حیاتیاتی باڑ کی تعمیر کی جائے گی اور صحرازدگی سے متاثرہ علاقے میں شجرکاری پر زور  دیا جائے گا۔

 

حیاتیاتی تنوع کا تحفظ

چین ایسے ممالک میں شامل ہے  جس نے جلد ہی حیاتیاتی تنوع کے کنونشن پر دستخط  کئے۔سنہ انیس سو چورانوے میں چین میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کا  مرحلہ مکمل ہوا۔  پھر سنہ دو ہزار دس میں اگلےبیس  برس  کے دوران  یعنی سال دو ہزار گیارہ سے دو ہزار تیس تک حیاتیاتی تنوع  کے تحفظ کے لئے  چین نےحکمت عملی بنائی۔ اس کے علاوہ جنگلی جانوروں کے تحفظ کا قانون ، سبزہ زار اور قدرتی تحفظ کے  علاقے کے ضوابط  سمیت دیگر قوانین و ضوابط  بھی  وضع کئے گئے ہیں ۔ان قوانین  کےتحت معدوم ہوتے جنگلی جانوروں کے تحفظ میں ابتدائی پیش رفت ہوئی۔چین میں جنگلی جانوروں کی افزائش نسل کے دو سو پچاس  مراکز قائم کئے گئے ۔اس وقت چین میں جنگلی پانڈوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار چھ سو تک  پہنچ  گئی ہے۔

 

قدرتی تحفظ کے علاقے کی تعمیر

سال دو ہزار نو کے آواخر تک چین میں مختلف درجہ کے قدرتی تحفظ کے علاقوں کی تعداد دو ہزار پانچ سو اکتالیس تک پہنچ گئی ۔ان علاقوں کا رقبہ ملک کے کل رقبے کے پندرہ فیصد سے زائد ہے جو دنیا بھرکے اوسط معیار  یعنی بارہ فیصد سے تجاوز کر گیا ہے ۔چین کا پہلا قدرتی تحفظ کا علاقہ سنہ انیس سو چھپن میں صوبہ گوانگ دونگ کے چاؤ  چھینگ شہر کے دنگ ہو پہاڑ میں قائم  کیا گیا۔سنہ دو ہزار میں چین نے دریائے یانگسی ، دریائے زرد اور دریائے لان کے منبع پر قدرتی تحفظ کا  علاقہ قائم کیا جس کا کل  رقبہ تین لاکھ چھیاسٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے جو چین میں سب سے بڑا قدرتی تحفظ  کاعلاقہ ہے۔ صوبہ گوانگ دونگ  میں سب سے زیادہ قدرتی تحفظ کے علاقے ہیں جن کا کل رقبہ بارہ لاکھ اکتیس ہزار پانچ سو ہیکٹر ہے۔سنہ دو ہزار تیرہ تک چین میں کل بتیس قدرتی تحفظ کے علاقے اقوام متحدہ کے تعلیم ، سائنس اور ثقافت کی تنظیم کی جانب سے عالمی دائرہ حیاتیات کے محفو ظ کردہ علاقوں کی فہرست میں شامل  کئے گئے ہیں۔


شیئر

Related stories