گلوبلائزیشن کے رحجان کو روکنا ناممکن ہے، سنہوا نیوز کا تبصرہ
امریکہ نے " سب سے پہلے امریکہ " کی پالیسی کو اپناتے ہوئے عالمی معیشت میں تحفظ پسندی کے جو اقدامات اختیار کیے ہیں انہوں نے پوری دنیا کو ایک غیر یقینی صورت حال سے دو چار کر دیا ہے ۔ تاہم معاشی گلوبلائزیشن کے رحجان کو تبدیل کرنا اب ممکن نہیں رہا چاہے کوئی اس کو کتنی بھی سختی سے رد کرے ۔ دو صدیوں پر محیط گلوبلائزیشن کے اس عمل نے ناصرف اشیا ، افراد ، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی ترسیل میں آسانی پیدا کی بلکہ امریکہ سمیت دنیا بھر کی اقوام اور ممالک کو ایک دوسرے کےساتھ مربوط کر دیا ۔ کام کے سلسلے میں کاریگروں کی دیگر ممالک میں منتقلی اور اور صنعتی پروڈکشن اور منڈی میں گلوبلائزیشن کا رحجان ایک قدرتی عمل ہے جس میں کم سرمائے کے ساتھ زیادہ منافع حاصل کیا جا سکتا ہے ۔تاہم تحفظ پسندی کا شکار امریکہ اضافی ٹیرف عائدکر کے اور پروڈکشن یونٹس کو امریکہ میں واپس لانے کے اقدامات کرکے دیگر ممالک کی اسمبلی لائن کواپنی مرضی کے مطابق از سرِ نو تعمیر کرنا چاہتا ہے جس میں وہ ناصرف ناکام ہو گا بلکہ اس کا مزید نقصان بھی ہوگا ۔
گزشتہ ماہ امریکہ کی ملبوسات اور جوتا سازی کی ایسوسی ایشن نے دیگر چار ایسوسی ایشنز کے ساتھ امریکہ کی جوتاسازی کی صنعت کی نمائندگی کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خط لکھا جس میں اضافی ٹیرف کے اقدامات کے حوالے سے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر ان اقدامات پر عمل کیا گیا تو ناصرف اس کا بوجھ صار ف پر پڑے گا بلکہ اس کے منفی اثرات حتمی طور پر اس روائیتی صنعت کو بھی تباہ کر دیں گے کہ جو امریکی معیشت کی کامیابی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یورپین یونین کی ٹریڈ کمشنر سیسیلیا میلم سٹروم نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ بند کر دینا کسی بات کا حل نہیں ہے اور ہم کھلی اور اصولوں پر مبنی تجارت پر یقین رکھتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے تمام تر تجارتی بدمعاملگی کے باجود اس تمام تر صورتحال میں چین نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی ذمہ دارانہ اور پر خلوص انداز میں بات چیت کے ذریعےمعاملات کے حل پر زور دیا اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں عالمی تعاون کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔