ہانگ سے متعلق برطانیہ کے جھوٹ کا پردہ فاش، سی آر آئی کا تبصرہ

2019-07-05 19:06:56
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

حال ہی میں ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے میں چند شرپسند عناصر نے قانون ساز ادارے کی عمارت پر پرتشدد انداز میں دھاوا بول دیا۔اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد کچھ برطانوی سیاسی شخصیات نے تاریخی دستاویز "چین-برطانیہ مشترکہ اعلامیے" کی آڑ میں ہانگ کے عوام کی آزادی کی حفاظت کے حوالے سے نام نہاد بیانات کا سلسلہ شروع کردیا۔

یہ بیانات تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ایک کوشش کے ساتھ ساتھ چین کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہیں۔ان بیانات سے چین اور برطانیہ کے تعلقات کو نقصان پہنچا ہے۔

سنہ انیس سو چوراسی میں چین اور برطانیہ نے "چین -برطانیہ مشترکہ اعلامیے" پر دستحط کئے تھے۔ یہ دستاویز ہانگ کانگ کے اقتداراعلیٰ کو چین کو واپس کرنے اور عبوری عرصے کے دوران متعلقہ انتظام و انصرام کے حوالے سے تاریخی دستاویز ہے۔یکم جولائی سنہ انیس سو ستانوے کو ہانگ کانگ کی چین کو واپسی کے تمام مراحل مکمل ہوگئے اور ہانگ کانگ سے متعلق برطانیہ کے تمام حقوق اور ذمہ داریاں ختم ہوگئیں۔ یوں ہانگ کانگ کی چین کو واپسی کے بعد برطانیہ کا ہانگ کانگ کے اقتداراعلی، ہانگ کانگ پر حکمرانی اور ہانگ کانگ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق ختم ہوگیا۔ اب برطانیہ کی ہانگ کانگ سے متعلق کوئی بھی ذمہ داری باقی نہیں ہے۔

ان حقائق کے برعکس برطانیہ سے اکثر ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً برطانیہ نے ہانگ کانگ کے عوام کی آزادی کے لئے کوشش کی اور چین کو واپسی کے بعد ہانگ کانگ میں حقیقی جمہوریت کو متعارف نہیں کروایا گیا۔

اس تناظر میں برطانوی دانشور مارٹن جیکس کہتے ہیں کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں ہانگ کانگ کو کسی قسم کی آزادی حاصل نہیں تھی، عوام کو اپنی قیادت کے انتخاب کا حق حاصل نہیں تھا، تمام مقامی معاملات گورنر جنرل طے کرتا تھا۔ مقامی لوگوں کے پاس انصاف کے لئے کوئی عدالت موجود نہیں تھی، آزادی اور جمہوریت نام کی کوئی شے موجود نہ تھی۔ چین کو ہانگ کانگ کی وآپسی کے بعد اس علاقے نے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ آزاد اور جمہوری دور دیکھا ہے۔

ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے کی حکومت نے قانون کے مطابق پرتشدد واقعے کو نمٹایا ہے۔حال ہی میں کچھ انتہا پسندوں نے پولیس پر حملہ کیا اور قانون ساز ادارے کی عمارت پر دھاوا بول دیا ۔ان کا یہ عمل اظہار رائے کی آزادی اور پرامن مظاہرے کی حدسے باہر نکل چکا ہے۔شرپسندوں کے اس پرتشدد عمل نے ہانگ کانگ کے قانون، حق حکمرانی، سماجی نظم و نسق اور علاقے کے بنیادی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ہانگ کانگ پولیس کی جانب سے پرتشدد جرائم کو ختم کرنا اور شرپسند عناصر کو سزا دینا ہانگ کانگ کے قانون کا تحفظ کرنے کے برابر ہے۔

تاہم برطانیہ کی کچھ شخصیات نے ہانگ کانگ پولیس کے قانونی عمل کو توڑمروڑ کر پیش کیا جو ان کی جانب دوہرا معیار اور حقائق کو مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ بھولا نہیں جانا چاہیئے کہ اگست دو ہزار گیارہ میں جب لندن میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے تو برطانوی اہلکاروں نے انہیں مجرمانہ کارروائی قرار دیا۔ برطانوی پولیس نے ان مظاہروں میں شریک افراد کو گرفتار کیا تو یہ کہا گیا کہ یہ قانون کے تحفظ کی کوشش ہے۔ لیکن جب یہی عمل ہانگ کانگ میں ہوا ہے تو برطانوی سیاستدان ایک اور چہرہ لے کر سامنے آئےہیں۔ اپنے ملک میں وہ قانون کےتحفظ کی بات کر رہے تھے اور ہانگ کانگ میں قانون شکنی کرنے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔یہ طرز عمل بالکل حقائق کے منافی ہے۔بائیس سال گزر گئے ہیں ، اور ہانگ کانگ اب برطانیہ کا نوآبادیاتی علاقہ نہیں رہا۔برطانیہ کی کچھ شخصیات کو خود اپنے اندرونی امور پردھیان دینا چاہیئے اور ہانگ کانگ کے معاملے پر بیان بازی کو بند کرنا چاہیئے۔


شیئر

Related stories