چین کے خلاف تائیوان کو استعمال کرکے امریکہ آگ سے کھیل رہا ہے، سی آر آئی کا تبصرہ

2019-07-10 10:51:46
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

امریکی وزارت خارجہ نے تائیوان کو دو ارب بائیس کروڑ امریکی ڈالرز کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔اس حوالے سے چین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔امریکہ کا یہ عمل ایک چین کے اصول ، چین-امریکہ کے تین مشترکہ اعلامیوں اور حال ہی میں اوساکا سربراہی کانفرنس میں دونوں رہنمأوں کے طے شدہ اتفاق رائے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔یہ عمل چین کے اندرونی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔امریکہ اس طرح کے اقدامات کے ذریعے آگ سے کھیل رہا ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ تین مشترکہ اعلامیوں اور ایک چین کے قانون کے مطابق آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے تعلقات کے ساتھ نمٹتاچلا آرہا ہے۔سنہ انیس سو بیاسی میں جاری کئے گئےاعلامیہ میں طے کیا گیا تھا کہ امریکہ کو حتمی حل سے قبل تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کو بتدریج کم کرنا ہے۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اپنے اندرونی قانون "تائیوان کے ساتھ تعلقات کے قانون" کے مطابق تائیوان کو فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔موجودہ امریکی انتظامیہ کے عہدے سنبھالنے کے بعد چار دفعہ تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کی گئی ہے۔یہ نہ صرف ملک میں ہتھیار ڈیلر زکی مانگ کو پورا کرنے کے لئے ہے بلکہ چین کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

تاہم امریکہ کی کچھ سیاسی شخصیات کی تائیوان کے ذریعے چین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔اس وقت آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کے درمیان قریب صنعتی چین اور سپلائی چین قائم ہوچکی ہے۔مین لینڈ چائنا،تائیوان کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی، برآمد کی مارکیٹ اور سرمایہ کاری لگانے کی اہم جگہ ہے۔ان اقدامات کے ذریعے دونوں کناروں کے انضمام کو وسعت دیتے ہوئےگہرائی تک لایا جارہا ہے۔

چالیس سالوں کی اصلاحات و کھلے پن کی پالیسی پر عمل درآمد کے بعد ہمارے پاس دونوں کناروں کی پرامن وحدت کو آگے بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔اس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ممالک تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کرنے کے بعد چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں۔ایک چین کے اصول کو عالمی براداری کی تائید و حمایت حاصل ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین ضرور پھر سے ایک بنے گا۔یہ ایک تاریخی رجحان ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔


شیئر

Related stories