چین امریکہ مذاکرات میں مزید دباؤ کارگر نہیں ہوگا،سی آر آئی کا تبصرہ

2019-07-31 10:17:20
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

چین امریکہ کے مابین اعلیٰ سطحی اقتصادی مذاکرات کا بارہواں دور تیس جولائی کو شنگھائی میں شروع ہوا۔اس موقع پر امریکہ کی بعض شخصیات نے کہا کہ ٹیرف پالیسی کے ذریعے چین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا گیا ہے اور امریکہ کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔کافی اتار چڑھاؤ کے بعد چین امریکہ مذاکرات کی بحالی ہوئی ہے تاہم امریکہ کی مذکورہ شخصیات مذاکرات کے لیے نیک خواہشات کے اظہار کی بجائے چین پر مزید دباؤ ڈالنے کی کو شش کر رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں وہ اس عمل سے مذاکرات سے زیادہ فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔

گذشتہ ایک سال کے مذاکرات کے دوران فریقین نے بیشتر امور پر اتفاق رائے حاصل کیا تاہم اس دوران امریکہ نے بارہا انتہائی دباؤ کا راستہ اختیار کیا ۔اور چین کے اقتدار اعلیٰ اور قومی وقار کو ٹھیس پہنچانے والے شرائط کو پیش کیا ۔ جس کے نتیجے میں مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے۔ تاہم رواں سال جون میں اوساکا میں چین اور امریکہ کے صدور نے مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کیا ۔ اب ایک مر تبہ پھرفریقین کے پاس مسائل کو درست انداز میں حل کرنے کا موقع آگیا ہے۔

بدقسمتی سے اس موقع پر امریکہ کی بعض شخصیات وہی پرانے طریقہ کار کو استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ماضی میں بھی ناکام رہا اور جس کامستبقل بھی مختلف نہیں ہو گا۔ گزشتہ ایک سال کے حقائق سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تجارتی جنگ میں کوئی نہیں جیتتا۔رواں سال چین کی معیشت مستحکم طور پر ترقی کر رہی ہے۔تاہم امریکی اقتصادی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ نے حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگلے سال امریکی معیشت کی شرح اضافہ بڑی حد تک سست ہو کر ایک اعشاریہ نو فیصد تک ہو جائےگی۔امریکہ کی بعض شخصیات اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے چین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جس کا ایک مقصد امریکی معیشت کی سست روی کے لیے بہانہ ڈھوںڈ کر امریکی شہریوں کی پریشانی کو دور کرنا ہے۔

مساوات اور مشترکہ مفادات پر مبنی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے امریکہ کی مذکورہ شخصیات کو رکاوٹیں ڈالنے کی بجائے مدد فراہم کرنی چاہیئے۔ پرانے طریقہ کار کے استعمال سے دوطرفہ تعاون کو نقصان پہنچے گا اور تاریخی موقع کھو جانے کا بھی خدشہ ہے۔


شیئر

Related stories