وبا سے بچاؤ کی راہ پر امریکہ کی جانب سے رکاوٹیں، سی آر آئی کا تبصرہ

2020-02-05 16:39:29
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

اس وقت ، چین ،نوول کرونا وائرس کا مقابلہ کر رہا ہے ، اور اس مشکل میں عالمی برادری چین کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ تاہم ، طبی میدان میں کامیابیوں کے حوالے سے دنیا کے سب سے بڑے ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے ، امریکہ نے اب تک چین کو کوئی خاطر خواہ مدد فراہم نہیں کی ہے ، بلکہ امریکہ وہ ملک تھا جس نے سب سے پہلے وو ہان سے اپنے قونصلر عملے کو واپس بلا لیا۔ امریکہ نے سب سے پہلے سفارت خانہ کا کچھ عملہ واپس بلا لیا، سب سے پہلے امریکہ میں چینی شہریوں کے داخلے پر جامع پابندیوں کا اعلان ،یہاں تک کہ امریکہ مسلسل خوف و ہراس پھیلاتا رہا جو دنیا کے لئے ایک خراب مثال ہے۔

یہ تینوں بدنام "فرسٹ" اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ نے اس وبا کے حوالے سے حد سے زیادہ غیر معروضی اقدامات اختیار کئے ہیں ، جو نہ صرف عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے خلاف ہیں ، بلکہ وبا کی روک تھام کے بین الاقوامی تعاون میں رکاوٹ کا باعث بھی ہیں۔ان امریکی اقدامات پر وسیع پیمانے پر تنقید کی گئی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے نشاندھی کی کہ کچھ ممالک نے سفری پابندی عائد کرکے بین الاقوامی صحت کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے جو حقائق اور ثبوتوں پر مبنی نہیں ہیں۔ شکاگو ٹرائبون نے ایک مضمون بھی شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اس وبا کو زینو فوبیا کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے ، اور بحرانی صورتحال کے سامنے انسانی قدروں کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

ظاہر ہے کہ وائرس کے خلاف اس جنگ میں ، چین تنہا نہیں ہے ، پوری دنیا سے تعاون ، مدد ، اعتماد اور تعاون نے وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے چین کے اعتماد اور طاقت کو تقویت بخشی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے جرمن فیڈرل اکنامک ڈویلپمنٹ اینڈ فارن ٹریڈ ایسوسی ایشن کے چیئرمین مائکل شومان نے کہا ہے کہ "اگر ہم ہمدرد اور مددگار ہیں تو خوف و ہراس ختم ہوجائے گا۔ اگر ہم وبا کے سامنے انسانیت سے محروم ہوجائیں گے تو ہم محض ایک جنگ سے کہیں زیادہ ہار جائیں گے۔

امریکی پالیسی سازوں کو ایسی معقول اور مناسب آوازوں کو سننے کی ضرورت ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں بنی نوع انسان کے لئے مشترکہ مقدر کے ساتھ ، دوسروں کی مدد کرنا اپنے آپ کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔


شیئر

Related stories