امریکہ کی نام نہاد "آزادی صحافت" منافقت اور بالادستی کا آئینہ ہے ، سی آر آئی کا تبصرہ

2020-03-04 12:51:24
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

دو مارچ کو امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا کہ رواں ماہ کی 13 تاریخ سے پانچ چینی میڈیا اداروں کے چینی ملازمین کی تعداد کو محدود کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس سے قبل امریکہ نے ان میڈیا اداروں کو"غیر ملکی مشن" قرار دیا تھا۔یہ امریکہ کی جانب سے چینی میڈیا اداروں پر دباؤ ڈالنے کا ایک اور حربہ ہے جس کا مقصد نام نہاد " آزادی صحافت" کے تحفظ کی بجائے پریس کی بالادستی کو اختیار کرنا ہے۔

امریکہ نے اس اقدام کی توضیح یہ پیش کی کہ یہ برابری کے اصول پر جوابی اقدام ہے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ چین نے اپنے ملک میں امریکی میڈیا اداروں یا ملازمین کی تعداد کو محدود کرنے سے متعلق کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔اس وقت چین میں امریکی میڈیا اداروں کی تعداد انتیس ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ میں چین کے میڈیا اداروں کی تعداد صرف نو ہے۔ چینی ویزے کے مطابق امریکی صحافی کئی مرتبہ چین میں داخل ہوسکتے ہیں تاہم دوسری جانب امریکی ویزا چینی صحافی کوصرف ایک مرتبہ امریکہ میں داخلے کی اجازت دیتاہے ۔لہذا "برابری" کی بات کہاں ہو سکتی ہے ؟

چین اور امریکہ کے سیاسی نظام مختلف ہیں اور میڈیا کے کردار بھی مختلف ہیں۔طویل عرصے سے چین کے اہم میڈیا ادارے چین اور دنیا کے درمیان باہمی مفاہمت اور معلومات کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔تاہم امریکہ کے بعض میڈیا ادارے چین کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نےچین کے خلاف توپین آمیز رپورٹ کی صریح حمایت کی ۔کیا یہی امریکہ کی نام نہاد " آزادی صحافت"ہے ؟

امریکہ میں چینی میڈیا رپورٹرز امریکی قوانین اور ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے ہیں ، صحافتی پیشہ ورانہ اخلاقیات پر عمل پیرا رہتے ہیں ۔ لہذا امریکہ کے پاس چینی میڈیا رپورٹرز کے خلاف اقدامات کرنے کی کوئی بنیادی وجہ نہیں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی سوچ سرد جنگ کی ذہنیت اور نظریاتی تعصب پر مبنی ہے ۔ امریکہ میں چینی میڈیا اداروں کو سیاسی طور پر دباو میں لانے کے لئے غیر معقول حربوں کا استعمال کیا گیاہے۔

دنیا کثیرالجہتی کےعمل سے گزررہی ہے ۔ چین کی ترقی کو روکا نہیں جا سکتا۔سرد جنگ جیسے پرانے ڈرامے تاریخی رجہاں کے خلاف ہیں جو صرف چین امریکہ کے درمیان معمول کے تبادلوں کو نقصان پہنچائیں گے اور ان سے آخر میں امریکی مفادات ہی متاثر ہونگے۔امید ہے کہ امریکہ اپنی غلطی کو حقیقی عمل سے درست کرے گا۔اگر امریکہ "خطرناک گیمز" کھیلنے پر بضد رہے گا ، تو چین بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔


شیئر

Related stories