بھارت کی طرف سے چین مخالف تحریک پر عالمی ذرائع ابلاغ کی تنقید
وادیِ غلبان میں چین کے ساتھ ہونے والی تنازعے کے بعد ، بھارت نے چین مخالف اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا جس میں 50 سے زیادہ چینی موبائل فون کی ایپلی کیشنز پر پابندی اور چینی فنڈز سے چلنے والے کاروباری اداروں پر بھارت میں سڑک کی تعمیر کے منصوبوں میں حصہ لینے پر پابندی لگانا شامل ہے۔اس کے علاوہ حال ہی میں بھارت میں کچھ بندرگاہوں پر چینی در آمدی مال کو کسٹم کلیئرنس کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ تین تاریخ کو بھارت کے وزیرِبجلی نے کہا کہ اب ہم چین اور پاکستان سے کوئی بھی چیز درآمد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بھارت بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے لیے طویل عرصے سےچینی سامان پر انحصار کرتا آیا ہے ۔ اگرچہ نئے قواعد و ضوابط سے کچھ ہندوستانی کمپنیوں کو فائدہ ہوگا ، لیکن مستقبل میں ، اس سے ہندوستان میں گھریلو بجلی کی قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں۔اس کے علاوہ ، بھارت کے اس اقدام سے اس کے ہوا صاف کرنے کے منصوبوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے ، کیونکہ چین بھارت کو ڈیسلفورائزیشن آلات (ایف جی ڈی) فروخت کررہا ہے ، جس سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے پہلے ہی اس بات کا تذکرہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت سے ہندوستانی تخلیق کاروں کے لیے ایپلی کیشنز پر پابندی لگانے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا واحد ذریعہ کھو دیں گے۔نیو یارک ٹائمز" نے نشاندہی کی کہ ہندوستان میں موبائل فون کی چینی ایپلی کیشنز پر پابندی سے عالمی انٹرنیٹ کےمزید حصے بخرے کر دیئے گئے۔ وینچر کیپٹل فرم لائٹ سپیڈ انڈیا کے شراکت دار دیو کھارے کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی یہ کاروائی" پاپولزم" کا ثبوت ہے۔بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو اس وقت وبائی امراض اور ٹڈیوں کے آفت جیسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے ۔ ہندوستانی حکومت اب چین اور پاکستان کو نشانہ بنا رہی ہےشاید یہ عوام کی توجہ بٹانے کا ایک قدم ہے۔