سنکیانگ میں نام نہاد "وسیع پیمانے پر جبری مشقت کی صورت حال" فرضی اور بے بنیاد ہے
ستائیس اگست کو سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کے ہیومن ریسورسز اینڈسوشل سکیورٹی بیورو کے سربراہ رحماں جان داود نے اپنے بیان میں بتایا کہ سنکیانگ میں نام نہاد "بڑے پیمانے پر جبری مشقت کی صورت حال" امریکہ سمیت کچھ مغربی ممالک کےاداروں اور اہلکاروں کی من گھڑت اور بے بنیاد کہانی ہے ۔
داود نے اسی دن سنکیانگ حکومت کی پریس کانفرنس میں کہا کہ سنکیانگ نے بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن چارٹر اور متعلقہ کنونشن کے اصولوں کی ہمیشہ پیروی کی ہے اور متعلقہ قوانین اور ضوابط کاسختی سے نفاذ کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ سنکیانگ میں تمام قومیت کے لوگ کام کرنے اور ملازمت کے حصول کے لئے مکمل طور پر آزاد ہیں اور ان کی شخصی آزادی پر کبھی پابندی نہیں لگائی گئی ۔حکومت نے روزگار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کا کام کیا تاکہ تمام قومیتوں کے لوگوں کے لیے تسلی بخش ملازمتیں اور مستحکم آمدنی کا حصول ممکن ہو سکے۔
داود نے کہا کہ کچھ مغربی ممالک نے سنکیانگ میں روزگار کی پالیسیوں اور اقلیتی قومیتوں کی کامیابیوں کو رسوا کیا۔ وہ مغربی ممالک جنوبی سنکیانگ میں غربت کے خاتمے اور آمدنی میں اضافے کے لیے چین کے دوسرے علاقے جا کر کام کرنے کےعمل کو " جبری مشقت" کہتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے چین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کی برآمدی مصنوعات سب "جبری مشقت" کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد "ویغور جبری مشقت کی روک تھام کے ایکٹ " کی منظوری کرنا ہے ۔ یہ سب چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت، سنکیانگ کے استحکام اور ترقی کوروکنے اور چینی کمپنیوں کو دباو میں رکھنے کے امریکی ہتھکنڈے ہیں ۔