اتحاد و تعاون دنیا میں ترقی کا ضامن، سی آر آئی اردو کا تبصرہ

2020-08-31 16:28:00
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

دنیا کا کوئی ایک ملک چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو پوری دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح طاقت اور پیسے کے زور پر کسی دوسرے ملک کے اقتدار اعلیٰ کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ ممالک کی یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کی سوچ نے آج کی دنیا میں عالمگیریت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مختلف اقوام کو باہمی تعاون میں مزید اضافہ کرنا ہوگا اور بڑے ممالک کے رہنماؤں کو عالمی سفارتکاری میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا ۔

چین کے تمام اعلیٰ رہنما مسلسل دنیا کی قوموں کے درمیان اتحاد کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے تیس اگست کو فرانسیسی انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات میں "اتحاد و تعاون ، کھلے پن و اشتراک اور انسانی امن و ترقی کا مشترکہ تحفظ "کے موضوع پر لیکچر دیا۔ اس موقع پر وانگ ای نے کہا کہ بدلتے ہوئے بین الاقوامی ماحول کا سامنا کرتے ہوئے ، چین نےتجویز پیش کی کہ انتہائی بڑی منڈی میں ملنے والے فوائد اور مقامی ضروریات بہترین انداز میں پوری کی جائیں اور ایک نیا ترقیاتی نمونہ تیار کیا جائے جس میں گھریلو اور بین الاقوامی سلسلے ہر لحاظ سے ایک دوسرے کو فروغ دیتے ہوں۔ وانگ ای نے کہا کہ ہم مقامی ضروریات کو مزید وسعت دیں گے ، بیرونی دنیا کے لیے کھلے پن کو وسیع کریں گے ، مشترکہ عالمی بحالی کو اپنی بحالی کے ساتھ چلائیں گے ، اور اپنی ترقی کے ساتھ دنیا کی مشترکہ ترقی کو آگے بڑھائیں گے۔چین پرامن ترقی کی راہ پر قائم رہے گا اور تعاون اور باہمی مفادات پر مبنی جامع ترقی پر قائم و کاربند رہے گا۔

اس وقت عالمی سیاست تبدیل ہو رہی ہے‘ علاقوں اور ملکوں پر قابض ہونا اب طاقت کی علامت نہیں رہا۔ اختلافات کے حل کیلئے باہمی تعاون اور رابطوں پر انحصار اہم ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اقوام عالم کو پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ہی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رکھا جا سکتا ہے جس کے لئے ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے اور اس فلسفہ پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا میں طاقت کا توازن قائم و برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ یہی فلسفہ دنیا کی بقاء کا ضامن ہے جس میں ہلکی سی لغزش سے طاقت کا توازن بگڑے گا تو پراکسی وار‘ سرد جنگ یا مختلف تہذیبوں اور ممالک کے مابین باقاعدہ جنگ کی نوبت لائے گا اور بالاخر علاقائی یا عالمی تباہی پر منتج ہوگا۔ اقوام عالم کو پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ پر کاربند رکھنے اور کسی بھی قسم کے باہمی اختلافات و تنازعات کو افہام و تفہیم کے ساتھ طے کرنے کیلئے ہی پہلے لیگ آف نیشنز اور اسکے غیرمؤثر ثابت ہونے پر اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی ۔

اتحاد وتعاون کے اسی فلسفے پر قائم رہتے ہوئے ، کھلے پن کو وسعت دیتے ہوئے، اقوام عالم کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے ترقی اور امن کی راہ پر گامزن رہا جا سکتا ہے۔

شیئر

Related stories