امریکی سیاست دانوں کی طرف سے چینی کمپنیوں پر دباو ،خلافِ قانون اور غیر معقول ہے۔ سی آر آئِی کا تبصرہ
ستائیس تاریخ کی شام کو ، امریکہ واشنگٹن کی وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج نے ، ٹِک ٹاک پر امریکی حکومت کی پابندی کو معطل کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے ۔ شمالی کیلیفورنیا کی وفاقی کورٹ کی طرف سے وی چیٹ پرپابندی کو معطل کرنے کے فیصلے کے بعد یہ امریکہ کی دوسری وفاقی عدالت ہے جس نے چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو دبانے کے لیے امریکی سیاستدانوں کے انتظامی حکم کے خلاف "نہیں" کہا ہے۔ اس سے ایک بار پھر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سیاست دانوں کی طرف سے چینی کمپنیوں کو دبانے کا عمل قانون کے خلاف اور ناپسندیدہ ہے۔
ایک طویل مدتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو، چینی کمپنیوں پر امریکی حکومت کا دباؤ نا صرف مارکیٹ کے نظام کو سخت متاثر کرے گا ، بلکہ بین الاقوامی مقابلے میں امریکی کمپنیوں کو بھی کامیابی حاصل کرنےمیں مشکلات اوررکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔امریکی آئی ٹی صنعت کی تنظیم نیٹ چوائس نے متنبہ کیا ہے کہ امریکی حکومت کی پابندی سے دوسرے ممالک کو بھی ،امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو غیر ملکی منڈیوں میں داخلے سے روکنے کا بہانہ مل جائے گا ۔اگر معاملات اسی طرح چلتے ہیں تو ، اس سے تحفظ پسندی بڑھے گی اورعالمی معاشی بحالی میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوں گی ۔ میڈیا ٹائکون بیری دلر نے بھی متنبہ کیا ہے کہ ٹک ٹاک پر امریکی پابندی"پروٹیکشنسٹ گرینیڈ پھینکنے" کے مترادف ہیں۔ ایک بار جب اس معاملے کو سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے تو یہ لامحالہ معمول کی کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کرےگا۔
امریکہ کو سمجھنا چاہیے کہ ایک ایسا بڑا ملک ، جو تمام آزمائشوں پر پورا اترا ہے، چین کبھی بھی کسی خطرات اور دھمکیوں کے سامنے سر نہیں جھکائے گا اور چینی کاروباری اداروں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ تاریخ کے دھارےکے مقابلے میں ، تحفظ پسندی اور بالادستی ضرور ناکام ہوگی۔