عالمی طبی جریدے " دی لینسیٹ" کی جانب سے انسداد وبا میں چین کے کردار کی تعریف اور امریکی سیاستدانوں کے رویے پر تنقید
یکم مئی کو عالمی شہرت یافتہ طبی جریدے " دی لینسیٹ" کے ایڈیٹر ان چیف رچرڈ ہورٹن نے چائنا میڈیا گروپ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ وہ وبا کے خلاف امریکہ میں سائنسی و طبی ترقیاتی معیار اور ماہرین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں تاہم انہیں امریکی سیاستدانوں کے رویوں سے مایوسی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ وبائی صورتحال سے متعلق تبادلہ خیال کو جغرافیائی سیاسی محاز آرائی کا ایک جزو نہیں سمجھںا چاہیئے۔
ہورٹن نے کہا کہ چین کے پاس سارس وائرس سے نمٹنے کے تجربات ہیں اور سیاسی قابلیت بھی ہے جو قابل تقلید ہے۔موبائل اسپتال بھی انسداد وبا کے لیے نہایت اہم تخلیق ہے۔
ہورٹن نے مزید کہا کہ چینی ڈاکٹرز و سائنسدانوں اور عالمی ماہرین کے درمیان تعاون کی بدولت جنوری میں ہی وبائی صورتحال سے متعلق معلومات سامنے آ چکی تھیں ۔ڈبلیو ایچ او نے تیس جنوری کو اس وبا کو ہنگامی صورتحال قرار دیا جو دیگر ممالک کے لیے ایک انتباہ تھا۔لیکن بدقسمتی سے اکثر ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے انتباہ کو نظر انداز کیا ۔مثلاً امریکہ نے فروری کا پورا مہینہ اور مارچ کے اوائل کا عرصہ ضائع کیا۔ اس طرح انسانی غلطی کے باعث سانحے نے جنم لیا ہے۔
ہورٹن نے کہا کہ بعض حلقوں نے چین پر الزام تراشی کی ہے کہ چین وائرس کے پھیلاؤ کا ماخذ ہے ۔لیکن ایسے الزامات بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں ۔وبا سے لڑنے والے چینی ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیئے۔
ہورٹن نے کہا کہ وو ہان کودیکھا جائے تو اس شہر کا لاک ڈاؤن تیئس جنوری سے اپریل کے آغاز تک تقریباً دس ہفتے جاری رہا ۔اس وقت ووہان میں بنیادی طور پر وائرس کے پھیلاؤ کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔اس سے مراد لی جا سکتی ہے کہ وبا کی پہلی لہر دس ہفتوں کے لاک ڈاؤن کے بعد ختم ہو سکتی ہے۔ ہورٹن کے مطابق اس وقت ہمیں حفاظتی اقدامات کو برقرار رکھنا چاہیئے۔آنے والے چھ تا بارہ ماہ کے دوران ویکسین کی تحقیق اور تیاری میں پیش رفت متوقع ہے۔