نوول کورونا وائرس "تجربہ گاہ سے اخراج" کے باعث پھیلا ہے؟ ماہرین کی تردید
کووڈ-۱۹ کی وبا پھوٹنے کے بعد بعض مغربی ذرائع ابلاغ اور سیاستدانوں نے بنیادی قسم کی عام فہم طبی معلومات کو نظر انداز کرتے ہوئے وائرس کا ماخذ ایک "تجربہ گاہ "کو قرار دیا جس میں دوران تجربات لاپرواہی یا حادثے کی بنا پر اس وائرس کا اخراج ہوا۔ لیکن دنیا کے بیشتر سائنسدانوں اور محققین نے سائنسی تحقیقات سے اس قسم کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے نوول کورونا وائرس کو قدرتی قرار دیا ہے۔
امریکہ کے صفِ اول کے ماہرِ متعدی امراض انٹونی فوچی کا کہنا ہے کہ اس وائرس کےجینیاتی کوڈ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ کسی جانور سے انسان تک منتقل ہوا ہے ۔دو مئی کو بزنس انسائیڈر کی ایک رپورٹ میں بھی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ماہر متعدی امراض جونا مازیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہی کہا کہ "کووڈ-۱۹ کی وبا وائرس کے کسی تجربہ گاہ سے اخراج کے باعث پھیلی " اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
امریکہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر نے بھی تیس اپریل کو اپنی سرکاری ویب سائٹ پر یہ اعلان جاری کیا کہ "ہم سائنسی حلقوں کی اس بات سے متفق ہیں کہ نول کورونا وائرس نہ تو مصنوعی طور پر تیار کیا گیا ہے نہ ہی اس میں جینیاتی طور پر کوئی تبدیلی کی گئی ہے " ۔لیکن اسی تاریخ کو جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سےسوال کیا گیا کہ کیا ان کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ اس وائرس کا اخراج وو ہان انسٹی ٹیوٹ آف وائیرالوجی سے ہوا ہے،تو ان کا جواب تھا کہ ہاں ان کے پاس ثبوت ہیں۔ لیکن وہ ثبوت کیا ہیں اس کے جواب میں امریکی صدر کا جواب تھا " میں یہ نہیں بتا سکتا"۔
ابھی تک یہ بات نامعلوم ہے کہ نول کورونا وائر س کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی؟ یاد رہے کہ اٹھارہ مارچ کو امریکی وائرالوجسٹ رابٹ کیری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "ہمیں نہیں معلوم کہ یہ وائرس انسان میں کتنے عرصے سے موجود ہے ،ہو سکتا ہے وہ کئی ماہ ،کئی سال یا کئی عشروں سے موجود ہو ۔ "انہوں نے کہا کہ وو ہان میں بے شک کچھ کیسز سامنے آئے ، لیکن وو ہان اس وائرس کا ماخذ بالکل نہیں ہو سکتا۔ابھی تک کی رپورٹس سے بھی یہ ظاہر ہے کہ کافی زیادہ ممالک میں جو کیسز سامنے آئے ہیں ان کا تعلق چین سے نہیں ہے۔