سازشی نظریات کو نظرانداز کریں، کووڈ ۔۱۹ کسی تجربہ گاہ میں نہیں بنایا گیا ، امریکی وائرولوجسٹ

2020-06-10 13:19:56
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

برطانوی اخبار گارجیئن میں معروف امریکی وائرولوجسٹپیٹر ڈس زاک کا مضمون شائع ہوا جس میں اپیل کی گئی ہے کہ "سازشی تھیوریز کو نظرانداز کریں: سائنس دان جانتے ہیں کہ کووڈ- ۱۹ لیبارٹری میں نہیں بنایا گیا "۔ یہ مضمون تین جون کو برطانوی ایم آئی کے محکمہ 6 کے سابق سربراہ رچرڈ ڈیئر لو و کے تبصرے کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے ۔ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی کے اس سابق اہل کار نے اس وقت ایک نام نہاد "اہم" سائنسی رپورٹ کے حوالے سے کہا تھا کہ نوول کورونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ اسے چینی سائنس دانوں نے تخلیق کیا تھا۔ اپنے مضمون میں پیٹر نے کہا کہ "کچھ محققین نے اس مقالے کی سختی سے تردید کی ہے۔"ایک وبائی مرض کی ابتدا اوراس کے ظاہر ہونے کا تعین اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا ہوائی جہاز کے حادثے کا مطالعہ کرنا۔" "نئے وائرس کی ابتدا کا تعین مشکل ، اور وقت طلب ہے ، اس کے لیے منطق اور اسباب جاننے کی ضرورت ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ "چین میں ہمارے پندرہ سالہ کام نے ہمیں ایک منفرد مقام دیا ہے اور اسی لیے ہم بہت ہی اعتماد کے ساتھ کووڈ- 19 کے ممکنہ ذرائع کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ہم نے حال ہی میں ایک نظرثانی شدہ مقالہ شائع کیا ، جس میں سائنس دانوں کے لیے پہلے نامعلوم 781 چمگادڑ سے ماخوذ کورونا وائرس کے جین کے سلسلے کی اطلاع دی گئی ہے۔ ان وائرسز میں سارس کو وی ، سارس کووی 2 ، اور سیڈس کووی کے قریب ترین تعلق دار بھی شامل ہیں ... ہماری رپورٹ میں اس یقین کا اظہار کیا گیا ہے کہ کووڈ- 19 کا آغاز چمگادڑوں سے ہوا ہے۔

آخر میں پیٹر ڈس زاک نے کہا کہ ہمیں سازشوں کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے اور عالمی سائنسی برادری کی ہدایات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ وائرسز کیسے اور کیوں سامنے آتے ہیں ورنہ ہمیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔

ایک اور اطلاع کے مطابق نو جون کو عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادہانوم گیبریئیسس نے کہا کہ جینیاتی ترتیب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کانگو کےاستوائی صوبے میں پھیلنے والی ایبولا کی نئی لہر کا شمالی کیوو صوبے میں پھوٹنے والی گزشتہ وبا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی استوا ئی صوبے میں ۲۰۱۸ میں پھیلنے والے ایبولا سے اس کا کوئی تعلق ہے ۔ اس وبا کے ماخذ کے بارے میں تحقیقات ابھی بھی جاری ہیں ، اور یہ جانوروں میں بھی ہو سکتا ہے۔


شیئر

Related stories