غیر قانونی تارکینِ وطن کو مردم شماری میں شامل نہ کیے جانے کے خلاف امریکی ریاستوں نے عدالت سے رجوع کر لیا
جمعے کے روز امریکہ کی بیس ریاستوں ، پندرہ شہروں اور کاونٹیز کے اتحاد نے امریکی صدر کی جانب سے ۲۰۲۰ کی مردم شماری میں بغیر دستاویزی ثبوت کے حامل تارکینِ وطن کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف مقدمہ دائر کر تے ہوئے اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔ امریکی صدر نے کامرس سیکریٹری ولبر روس کو ہدایات دی ہیں کہ وہ مردم شماری کی نگرانی کریں اور دستاویزات نہ رکھنے والے تارکینِ وطن کے اعدادو شمار ان تک پہنچائیں تاکہ صدر ان کو رائے دہندگان کی مجموعی تعداد میں سے خارج کردیں۔ یہ اقدام ڈیمو کریٹس کے زیرِ انتظام ایوانِ نمائندگان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا ۔
مین ہیٹن کی عدالت میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے میں مرکزی نکتہ ،نگرانی کے طرزِ عمل پر مرکوز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ریاست سے ریاست کی بنیاد پر دستاویزی ثبوت نہ رکھنے والے تارکینِ وطن کی تعداد کا کوئی مصدقہ تخمینہ نہیں ہے اس لیے غیر مصدقہ اعدادو شمار کی بنیاد پر ان افراد کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ " من مانی اور حماقت" ہے۔ یہ فیصلہ امریکی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ، اس کی قانونی حیثیت سے قطعِ نظر مردم شماری میں گنا جائے گا ۔
اگر امریکی صدر کے اس فیصلے پر عمل ہو گیا تو اس سے کیلی فورنیا اور نیو یارک سمیت وہ تمام ریاستیں بے حدمتاثر ہوں گی کہ جہاں تارکینِ وطن کی ایک بہت بڑی تعداد سالہا سال سے آباد ہے کہ جن کے پاس دستاویزی ثبوت نہیں ہیں ۔
یاد رہے کہ حکام نے ۲۰۱۸ میں تجویز دی تھی کہ ۲۰۲۰ کی مردم شماری میں شہریت سے متعلق سوال کو شامل کیا جائے لیکن امریکی سپریم کورٹ نے اس پر عمل کرنے سے روک دیا تھا۔