امریکہ کے محصولاتی اقدامات عالمی تجارتی تنظیم کے آزادانہ تجارت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ چین۔امریکہ تجارتی محاز آرائی عالمگیر معیشت کی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ڈاکٹر عابد قیوم سلہری

2018-04-06 19:25:03
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

امریکہ کے محصولاتی اقدامات  عالمی تجارتی تنظیم کے آزادانہ تجارت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ چین۔امریکہ تجارتی محاز آرائی عالمگیر معیشت کی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ڈاکٹر عابد قیوم سلہری

امریکہ کے محصولاتی اقدامات  عالمی تجارتی تنظیم کے آزادانہ تجارت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ چین۔امریکہ تجارتی محاز آرائی عالمگیر معیشت کی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ڈاکٹر عابد قیوم سلہری


ڈاکٹر عابد قیوم سلہری پاکستان کے معروف تھنک ٹینک "پائیدار ترقیاتی پالیسی ادارے ایس ڈی پی آئی " کے سربراہ ہیں۔ عالمی و علاقائی امور پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور آپ کی آراء، تبصرے اور تجزیے پاکستانی اور بیرونی میڈیا پر شائع اور نشر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل سے خصوصی بات چیت میں امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے سے متعلق اپنے خیالات کا تبادلہ کیا۔

 

 ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے چین۔امریکہ تجارتی اختلافات کے حوالے سے کہا کہ اگر اس کو عالمگیریت  یا عالمی  باہمی رابطہ سازی کے پس منظر  میں دیکھا جائے تو یہ کسی بھی لحاظ سے مثبت صورتحال نہیں ہے۔دنیا عالمگیریت کو اس انداز سے دیکھ رہی تھی کہ ممالک کے درمیان سرحدیں ختم ہو جائیں گی ، لوگ آزادانہ آ جا سکیں گے ، آزادانہ تجارت کو فروغ ملے گا اور صارفین بڑے پیمانے پر عالمگیریت کے ثمرات سے مستفید ہوں گے۔ لیکن حالیہ صورتحال میں آگے بڑھنے کے بجائے ہم پیچھے کی جانب واپس آ رہے ہیں۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء  اور امریکی صدر ٹرمپ کے بر سراقتدار آنے کے بعد جس انداز سے امریکہ میں  قوم پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے یہ سب آگے بڑھنے کے حوالے سے اچھے آثار نہیں ہیں۔

پاکستانی تجزیہ نگار کے خیال میں امریکہ میں اس وقت جو نعرہ بِک رہا ہے وہ "سب سے پہلے امریکہ " کا ہے۔  امریکہ چاہتا ہے کہ اپنی مقامی صنعتوں کو  ترقی دے جس سے یقینی طور امریکی  صارفین کے لیے مہنگائی میں اضافہ ہو گا لیکن ٹرمپ کا نقطہ نظر یہی ہے کہ  صنعتوں کو بحال کیا جائے اور روزگار کی فراہمی کو فروغ دیا جائے۔کسی بھی اقتصادی ماڈل کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں جن سے ایک جانب اگر کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے تو  دوسری جانب کچھ لوگ خسارے میں جاتے ہیں لیکن امریکی اقدامات سے صارفین کو یقینی طور پر نقصان پہنچے گا ، چیزیں مہنگی ملیں گی  اور معیار میں بھی فرق آ جاتا ہے۔"میرے خیال میں امریکہ کے محصولاتی اقدامات سے ایک جانب اگر  صارفین  متاثر ہو٘ں گے  تودوسری جانب امریکہ کی مقامی صنعتوں میں شائد کچھ بہتری آ جائے"۔

 

ڈاکٹر عابد قیوم سلہری  کہتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی محاز آرائی سے  وہ  ممالک بھی محدود پیمانے پر متاثر ہو سکتے ہیں جن کے تجارتی مراسم اِن دونوں ممالک کے ساتھ ہیں۔ اگر امریکہ چینی مصنوعات پر محصولات کے فیصلے پر قائم رہتا ہے تو  چین  اپنی مصنوعات کی برآمدات  کے لیے دوسری عالمی منڈیوں کا رخ ر سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو امریکی اقدامات عالمی تجارتی تنظیم کے آزادانہ تجارت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ امریکہ کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے رحجان میں آئندہ یورپی یونین اور دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں جس سے عالمگیر معیشت متاثر ہو گی۔

 

پاکستانی تجزیہ نگار کے نزدیک چین کو امریکہ کے تجارتی تحفظ پسند اقدامات  کے خلاف عالمی تجارتی تنظیم میں اپنا موقف پیش کرنا چاہیے ۔ عالمی تجارتی تنظیم میں ایسے معاملات کے حوالے سے اکثر ٹریبیونلز تشکیل دیے جاتے ہیں اور فیصلہ بھی اُسی ملک کے حق میں آتا ہے جو متاثر ہوتا ہے۔ہر ملک اور ریاست کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کے تحفظ کی کوشش کی جاتی ہے۔"میرے خیال میں  موجودہ صورتحال میں امریکہ کو چین کی ضرورت ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ نے حالیہ دنوں چین کا دورہ کیا ہے ، روس کے ساتھ امریکہ کے سفارتی معاملات تناو کا شکار ہیں لہذا روس اور شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے لیے امریکہ کو چین کی حمایت اور تعاون درکار ہو گا۔اس لیے امید کی جا سکتی ہے امریکہ اور چین مذاکرات اور مشاورت سے تجارتی تنازعات کو حل کر سکیں گے"  


شیئر

Related stories