بوآو ایشیائی فورم " ایشیا کا ڈیووس "

2018-04-08 14:30:25
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

بوآو ایشیائی فورم " ایشیا کا ڈیووس "

بوآو ایشیائی فورم " ایشیا کا ڈیووس "

تحریر: شاہد افراز خان

عالمی سطح پر اگر سالانہ بنیادوں پر منعقد ہونے والی چند اہم کانفرنسز ، سیمینارز ،فورمز ، اجلاسوں یا دیگر بین الاقوامی نوعیت کی تقریبات کا جائزہ لیا جائے تو  اِن میں" بوآو ایشائی فورم" کو بھی نمایاں اہمیت حاصل ہے۔جس طرح یورپ میں ہر سال سوئٹزرلینڈ میں " ڈیووس اقتصادی فورم " کا انعقاد کیا جاتا ہے ایشیا میں بالکل وہی اہمیت " بوآو ایشائی فورم" کو  حاصل ہے اسی باعث اِسے " ایشیا کا ڈیووس " کہا جاتا ہے۔

رواں برس  " بوآو ایشائی فورم" آٹھ سے گیارہ اپریل تک  چین کے صوبہ ہائی نان میں منعقد ہو رہا ہے جس کا موضوع ہے  " ایک وسیع اور جدید ایشیا عظیم خوشحال دنیا کے لیے "۔  اگر  بوآو ایشیائی فورم کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو  ستائیس فروری دو ہزار ایک کو چین کے صوبہ ہائی نان کے قصبے " بوآو " میں  با ضابطہ طور پر فورم کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے بعد  دو ہزار دو سے سالانہ بنیادوں پر بوآو ایشیائی فورم کا انعقاد کیا جاتا ہے اور" بوآو " کو اِس عالمی سرگرمی کے انعقاد کے لیے ایک مستقل مقام کا درجہ حاصل ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ بوآو ایشیائی فورم کو ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ  عالمی سطح پر بھی اہمیت حاصل ہے۔فورم کے دوران مختلف ریاستوں کے سربراہوں کے درمیان اعلیٰ سطح  کے مذاکرات ہوتے ہیں ، صنعتی و کاروباری حلقوں کے ساتھ ساتھ ایشیائی ممالک اور دنیا بھر سے سیاستدان ، دانشور ، ماہرین تعلیم ، تھنک ٹینکس اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے اہم شخصیات  فورم میں شریک ہوتی ہیں اور  علاقائی و عالمی امور پر وسیع تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ فورم کے اہم مقاصد میں ایشیا کے مختلف ممالک کی ترقیاتی حکمت عملیوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا  شامل ہے لیکن کوشش کی جاتی ہے کہ نہ صرف ایشیا ئی ممالک کے درمیان بلکہ ایشیا اور دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان بھی معاشی تبادلوں ، رابطہ سازی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے مشاورت کی جا سکے۔بوآو عالمی سرگرمی کو  ایک ایسے اعلیٰ پلیٹ فارم کا درجہ حاصل ہے جہاں حکومتیں ، صنعتی و کاروباری ادارے  ، ماہرین اور دانشور مل بیٹھ کر  اقتصادیات ، سماج ، ماحولیات اور دوسرے اہم موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کر سکتے ہیں۔

پاکستان  بوآو ایشیائی فورم کے بانی رکن ممالک میں شامل ہے۔چین اور پاکستان سمیت دنیا کے جن  دیگر  چھبیس ممالک نے ستائیس فروری دو ہزار ایک کو فورم کی تشکیل کا اعلان کیا  اُن میں آسٹریلیا ، بنگلہ دیش ، برونائی دارلسلام ، کمبوڈیا ، بھارت ، انڈونیشیا ،جاپان ،  ایران ، قازقستان ، کرغزستان ، لاوس ، ملائشیا ، منگولیا ، میانمار ، نیپال ، فلپائن ،  جنوبی کوریا  ، سنگاپور ، سری لنکا ، تاجکستان ، ویتنام ، تھائی لینڈ ، ترکمانستان  اور ازبکستان شامل ہیں۔ دو ہزار چھ میں اسرائیل اور نیوزی لینڈ کو بھی فورم کی رکنیت دی گئی جبکہ دو ہزار سولہ میں مالدیپ بھی  بوآو ایشیائی فورم سے وابستہ ہو گیا جس سے رکن ممالک کی مجموعی تعداد انتیس ہو گئی ہے۔بوآو ایشیائی فورم کی حیثیت ایک غیر سرکاری اور غیر منافع بخش  عالمی تنظیم کی ہے جہاں فورم کے رکن ممالک ، شراکت داروں اور حامی فریقین  کےدرمیان با قاعدہ تشکیل دیے گئے   فریم ورکس کے تحت تعاون اور مشاورت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

رواں برس بوآو فورم کے دوران تقریباً ساٹھ سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن میں چار اہم موضوعات کو اہمیت دی جائے گی۔اِن موضوعات میں  عالمگیریت اور دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ،   وسیع ایشیا ،  جدت اور اصلاحات شامل ہیں۔

اگر  عالمی منظرنامے پر نگاہ دوڑائی جائے تو ایشیائی ممالک کو اپنے افرادی و قدرتی وسائل کے باعث دنیا میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ ماہرین موجودہ دور میں ایشیا کو دنیا کی ترقی کا انجن قرار دیتے ہیں۔" بوآو ایشائی فورم" کے دوران  فیصلہ ساز ہر  سال اکھٹے ہوتے ہیں اور  نہ صرف اقتصادی بلکہ سماجی ، ثقافتی اور افرادی روابط کو  بھی فروغ دینے کے حوالے سے مشاورت کی جاتی ہے۔حالیہ فورم کو دنیا کے نزدیک اِس لیے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ  ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی محاز آرائی میں شدت آتی جا رہی ہے  ، ایشیائی ممالک کے سربراہان اور پالیسی ساز چین میں اکھٹے ہو رہے ہیں جس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ " اقتصادی موضوعات " فورم کے دوران بنیادی توجہ کا مرکز ہوں گے۔

دنیا کے معاشی ماہرین اور سیاسی دانشوروں کو انتظار ہے کہ چین کے صدر شی جن پھنگ  فورم سے اپنے کلیدی خطاب میں کن نکات کو اجاگر کرتے ہیں۔ موجودہ سالانہ بوآو فورم کے دوران یہ  امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ  عالمگیریت مخالف اقدامات کے خلاف ایک مشترکہ ویژن کو فروغ دیا جا سکے گا۔ ایشیائی ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ترقی کے حوالے سے ایک ایسا نظام اپنایا جائے جو  وسیع ، مربوط  ، اشتراکی  اور متوازن ہو ۔ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی کشمکش کے باعث عالمی معیشت غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے ، دو بڑے ممالک کے درمیان تجارتی تنازعات کو دیگر دنیا تجارتی تحفظ پسندی اور عالمگیریت پر مبنی نظریات کے درمیان صف آرائی قرار دے رہی ہے۔ایسے میں ایشیائی ممالک کی نظریں بھی چین پر مرکوز ہیں کہ چین تجارت و سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے  کیا ایسے اقدامات اٹھاتا ہے جو مستقبل میں دوسرے ممالک کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہو سکیں گے۔  


شیئر

Related stories