چینی دانش سے غربت ، بے روزگاری اور بد عنوانی کا خاتمہ

2018-03-12 15:25:10
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

چینی دانش سے غربت ، بے روزگاری اور بد عنوانی کا خاتمہ

چینی دانش سے غربت ، بے روزگاری اور بد عنوانی کا خاتمہ

 تحریر : شاہد افراز خان

اکثر  ہم یہ لفظ سنتے رہتے ہیں کہ چینی دانش یا چینی فہم و تدبر۔اسی طرح چینی حکمت کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔اِن تمام امور کو سمجھنے کے لیے گزشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران مختلف شعبہ جات میں چین کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں کو بغور دیکھنا اور سمجھنا ہو گا۔میرے خیال میں چین کی معجزاتی ترقی کے پس پردہ جو عوامل کار فرما ہیں ان میں چینی قیادت کی دور اندیشی کا پہلو بھی  انتہائی نمایاں ہے یہی وجہ ہے کہ بیجنگ میں جاری چین کی قومی عوامی کانگریس اور چین کی عوامی سیاسی مشاورت کانفرنس کے سالانہ اجلاسوں میں دنیا کی دلچسپی کا نقطہ چینی قیادت کے نئے فیصلے اور پالیسیاں ہیں۔

 

چین میں اصلاحات کے حوالے سے منصوبہ بندی بھی اِس انداز سے کی جاتی ہے کہ ثمرات سے  آنے والی نسلیں مستفید ہوتی ہیں۔اس کی ایک مثال چین میں اصلاحات اور کھلے پن کی وہ پالیسی ہے جو انیس سو اٹھتر میں متعارف کروائی گئی اورآج دو ہزار اٹھارہ میں  پالیسی کے نفاذ کو چالیس برس مکمل ہو چکے ہیں۔ان گزشتہ چالیس برسوں میں اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی پر اِس موثر انداز سے عمل درآمد کیا گیا کہ چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے ۔

 

اس وقت اگر عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو  دنیا کے مختلف ممالک کو ترقی یافتہ ، ترقی پزیر اور پسماندہ یا غریب ممالک کے تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے اکثریتی وسائل ترقی یافتہ ممالک کے پاس ہیں ، عالمگیر مالیاتی نظام ترقی یافتہ ممالک چلاتے ہیں اور  ہمیں ترقی پزیر یا غریب ممالک اکثر عالمی فورمز پر ںہ صرف اپنے حقوق کی آواز بلند کرتے  بلکہ اپنے حقوق کا تقاضا کرتے نظر  آتے ہیں۔ یہاں اس بات کو  بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حقوق مانگنے کے ساتھ ساتھ  اُن بنیادی وجوہات کا جائزہ بھی  لینا ہو گا جن کے باعث ترقی پزیر اور غریب ممالک ترقی کے سفر میں پیچھے رہ گئے ہیں اور عالمگیریت کے ثمرات سے صیح معنوں میں مستفید نہیں ہو پا رہے ہیں۔

 

میرے خیال میں تین مسائل ایسے ہیں جو  ترقی پزیر اور غریب ممالک کے لیے  بڑے چیلنجز ہیں۔ غربت ، بے روزگاری اور بد عنوانی۔ غربت کے باعث معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو پاتی ، بے روزگاری معاشرتی مسائل کو جنم دے رہی ہے  اور بد عنوانی سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔یہاں دنیا کو چینی دانش سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور بلاشبہ میری نظر میں چین دنیا کے ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک نمونہ ہے  جو  اپنی بہترین طرز حکمرانی ، موثر پالیسی سازی اور دور اندیش قیادت کی بدولت غربت ، بے روزگاری اور بد عنوانی کے چیلنجز سے نہ صرف بہتر  انداز سے نمٹ رہا ہے بلکہ بے مثال کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔

 

اگر ہم تھوڑا سا تفصیلی جائزہ لیں تو  صورتحال واضع ہو جاتی ہے۔چین نے گزشتہ تین سے چار دہائیوں کے دوران ستر کروڑ افراد کو سطح غربت سے نکالا ہے۔چین کی قومی عوامی کانگریس کے موجودہ سالانہ اجلاس کے دوران  بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں تقریباً چھ کروڑ اسی لاکھ لوگ غربت کے دائرے سے نکل آئے ہیں جبکہ رواں برس چینی حکومت پر عزم ہے کہ مزید ایک کروڑ لوگوں کو غربت سے چھٹکارا دلایا جائے گا۔یہاں ہمیں چینی حکومت کی دور اندیش پالیسیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔چین چاہتا ہے کہ دو ہزار بیس تک ہر اعتبار ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرہ تشکیل دیا جائے  جس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے تمام شہری غربت کی لکیر  سے اوپر زندگی بسر کر رہے ہوں ۔میرے خیال میں ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کو  چین کی کامیابی سے سیکھنے  کی ضرورت ہے کیونکہ چین نے ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے ہی غربت کے خاتمے کی کوششوں میں بے نظیر کامیابی حاصل کی ہے اور اقوام متحدہ کے دو ہزار تیس کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں چین کو  اس لحاظ سے بھی داد دینا پڑے گی کہ چین  گزشتہ تیس سے چالیس برسوں کے دوران غربت کے خاتمے کی پالیسی پر نہ صرف ثابت قدمی سے قائم ہے بلکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ چین کی کوششوں اور اقدامات میں تیزی آتی جا رہی ہے جس سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے چین منزل مقصود سے اب کچھ ہی قدم دور ہے۔

 

غربت سے ہی جڑا ایک اور مسئلہ بے روزگاری کا بھی ہے ۔ظاہر ہے جب غربت ہو گی تو وسائل محدود  ہوں گے  ، وسائل محدود ہوں گے تو  سماج کے تمام طبقات تک وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو پائے گی اور نتیجہ سماجی رویوں میں بگاڑ کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہاں بھی چین ہمیں پیش پیش نظر آتا ہے۔ایک ایسا ملک جس کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ سے زائد ہے  ، یہاں تو  بے روزگاری کا مسئلہ دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کی نسبت زیادہ ہونا چاہیے  لیکن ایسا نہیں ہے۔چین کی حکومتی ورکنگ رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران روزگار کے چھ کروڑ ساٹھ لاکھ  نئے مواقع پیدا کیے ہیں جبکہ رواں برس کے لیے  ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔چین چاہتا ہے کہ باصلاحیت اور پیشہ ورانہ افراد  کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس حوالے سے کوشش کی جاتی ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں میں ہم آہنگ ترقی کو فروغ دیا جائے۔ترقی پزیر ممالک بشمول پاکستان ،  یہاں دیہی علاقوں میں روزگار کے محدود مواقعوں کے باعث لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں جس کا نتیجہ روزگار کی طلب میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔چین کوشاں ہے کہ روزگار کے مزید ایسے نئے مواقع پیدا کیے جائیں جس سے شہری اور دیہی علاقوں میں متوازن سماجی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جائے ۔

 

غربت ، بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ترقی پزیر ممالک کو درپیش ایک بڑا چیلنج بد عنوانی کا بھی ہے۔بد عنوانی کے باعث سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں ، لوگوں کے جائز مفادات متاثر ہوتے ہیں ، حکومتی مشینری کا پہیہ سست ہو جاتا ہے اور معاشرے  احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چین اس لحاظ سے نہ صرف ترقی پزیر ممالک بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے کہ یہاں نہ صرف چینی کمیونسٹ پارٹی کے اندر بلکہ ریاستی اداروں میں بھی  نگرانی کا ایک ایسا سخت گیر نظام اپنایا گیا ہے  جس کی بدولت بد عنوان عناصر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران لاکھوں بد عنوان اہلکاروں کو  سزائیں دی گئی ہیں جبکہ  مرکزی حکومت کے تحت کام کرنیوالے چار سو چالیس اعلی اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کی گئی ہیں۔چین کی بد عنوانی کے خلاف جاری موثر مہم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ  بدعنوان اہلکاروں کے خلاف نہ صرف اندرون  ملک  کاروائیاں کی گئی ہیں بلکہ بیرونِ ملک فرار ہو جانے والے اہلکاروں کے خلاف بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ میری نظر میں چینی حکومت کی بد عنوانی کے خلاف مہم کی سب سے اہم بات قانون اور آئین کی حاکمیت ہے۔چین میں بد عنوان عناصر کے خلاف یکساں بلا تفریق اقدامات کیے گئے ہیں  جبکہ اس کے برعکس ترقی پزیر معاشروں میں عام طور پر   اعلیٰ رتبے یا  سیاسی اثر و رسوخ والے بد عنوان افراد قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جاتے ہیں لیکن چین میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے۔ چین کے صدر شی جن پھنگ کی جانب سے بد عنوان عناصر کے خلاف شروع کی جانے والی مہم کو چینی عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہے  اور کہا جا سکتا ہے کہ " بہت جلد چین بد عنوانی کے خلاف کلین سویپ فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا "۔یقینی طور پر  بد عنوانی کے خاتمے کے لیے چینی قیادت کا عزم اور وژن دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک کے لیے جہاں حوصلہ افزاء اور لائق تحسین ہے  وہاں قابلِ تقلید بھی ہے۔

 


شیئر

Related stories