پاکستان کے نامور دانشور اورصدارتی تمغہ امتیاز کے حامل ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کی چائنہ ریڈیو انٹر نیشنل سے بات چیت

2018-03-15 16:28:58
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

پاکستان کے نامور  دانشور اورصدارتی تمغہ امتیاز کے حامل ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کی چائنہ ریڈیو انٹر نیشنل سے بات چیت

پاکستان کے نامور  دانشور اورصدارتی تمغہ امتیاز کے حامل ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کی چائنہ ریڈیو انٹر نیشنل سے بات چیت

ان دنوں چین میں  نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) اور چینی عوامی مشاورتی سیاسی کانفرنس (سی پی پی سی سی) کے اجلاس جاری ہیں۔ اس  حوالے سے پاکستان کے نامور تجزیہ کار ڈاکٹر عرفان احمد بیگ نے چائنہ ریڈیو انٹر نیشنل سے بات چیت کی  ۔انہوں نے چین کے قانون ساز ی کے نظام،  چین کے ترقی کے تصور،  خارجہ پالیسی اورپاکستان میں جاری منصوبوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا  ا ظہار کیا۔

 مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ

عصرِ حاضر میں چین کی بحیثیت قوم  ترقی، مضبوط معیشت  اور عالمی کردار  کےپیچھے چین کا مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ ہے۔  اور ان میں این پی سی  اور سی پی پی سی سی کو  بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

ان دوںوں اداروں کی مضبوطی کی وجہ سے چین اندورنی و بیرونی حالات کے مطابق  پالیسیاں طے  اور قانون سازی کرتا ہے۔ یہ دونوں ادارے  باہم مربوط اور ہم آہنگ ہیں۔ ان دوںوں اداروں میں مشاورت کا طریقہ کار، پالیسیوں کی تیاری   اور ان پر عملدرآمد کا طریقہ    ترقی پذیر ممالک کے لیے  قابلِ تقلید ہے ۔

چین کی امتیازی خصوصیات
چین کی چند  امتیازی خصوصیات ہیں جوکہ اس کو منفرد  اور نمایاں بناتی ہیں:

مستقل مزاجی

چین کی ایک خاصیت مستقل مزاجی ہے۔ چینی لوگ مستقل مزاجی سے کام کرتے ہیں ۔ دیوارِ چین اس کی ایک مثال ہے۔ چین نے اپنے دفاع کے لیے  اس کو بنایا  ۔  چین نے بجائے جنگ کرنے یا جارحیت کے مستقل مزاجی سے اپنے دفاع کو مضبوط بنایا اور ترقی کی۔

عدم جارحیت

چین کی ایک اور خاصیت عدم جارحیت کی پالیسی ہے۔جب سے چین آزاد ہوا ہے۔چین نے اس وقت سے لیکر آج تک کبھی کوئی ایسی حکمتِ عملی نہیں بنائی جس سے دوسروں کو نقصان ہو یا جنگ کے امکانات ہوں۔ اگرچہ چین بذاتِ خود ماضی میں جارحیت کا شکار رہا ہے۔ مگر اس کے باوجود چین عدم جارحیت کا حامی  ہے ۔

سب کے لیے یکساں فائدہ مند پالیسیاں

اس وقت دنیا میں جو سرمایہ دارانہ نظام ہے اس میں یہ تصور ہے کہ ایک شخص یا ملک کا فائدہ  دوسرے شخص یا ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔ لیکن چین کی تجارت  کے انداز میں نفع تو ہے مگر وہ نفع ایسا ہے کہ اس کو  دونوں اقوام پر  تقسیم کیا جاتا ہے  ۔تجارت کے اس انداز میں یکساں فوائد اور  مواقع ہیں۔

افریقی ممالک، مشرقِ وسطی اور ایشیا ئی ممالک کا تجارت کے لیے چین کا رخ، یا چین کی طرف جھکاو کی وجہ  یہ ہے کہ اس میں فائدے کے پہلو ہیں۔  ان ممالک کو  اپنی خود مختاری یا اقتصادی طورپر غلام بنائے جانے کے کوئی اندیشے یا خدشات نہیں ہیں۔

اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے خلاف چین ایک مضبوط و موثر   آواز

اگر  ماضی کا جائزہ لیا جائے تو   جب نوآبادیاتی نظام ختم ہوا  تو  انہی طاقتوں نے اقتصادی نو آبادیا تی نظام شروع کیا اور اس سے ان ممالک کا بالواسطہ اقتصادی استحصال کیا ۔موجودہ دور میں اگر کوئی اس اقتصادی نوآبادیاتی نظام کے خلاف  امن و آشتی، عدم تشدد کا نظریہ لے کر پرامن انداز میں کھڑا ہے تو وہ چین ہے۔

چین نے اگر کسی ملک میں تجارت کی یا اقتصادی سرگرمیوں کےذریعے  اپنی سروسز کو بہتر کیا جیسے ون بیلٹ ون روڈ  یا گودار پورٹ پروجیکٹ ہے تو  چین کسی کے نقصان کے خلاف نہیں گیا ۔ چین کے تمام  منصوبے  خطے، دوںو ں ممالک اور مجموعی طور پر سب کے لیے سود مند ہیں۔

خارجہ پالیسی

چین کسی ملک کے ساتھ جنگ یاجارحیت کا خواہاں  نہیں ہے۔  چین عالمی سطح پر امن کے فروغ کا حامی ہے اور اس کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کرر ہا ہے۔ چین اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت دنیا میں امن چاہتا ہے ۔ چین انسانی صلاحیتوں کو   ترقی اور ماحول کی بہتری کے لیے استعمال  کرنے کا داعی ہے۔

گوادر پورٹ پروجیکٹ

گزشتہ ستر سالوں میں بلوچستان کی ترقی  کے لیے گوادر پورٹ جیسا منصوبہ  نظر نہیں آتا۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ پیداواری ذرائع میں اضافہ ہو گا۔ اور عام شہری خوشحا ل ہوں گے ۔

چین کی جانب سے شروع کئے گئے  اس پروجیکٹ  میں ابھی تک  جو کچھ ہوا ہے  اس سے سڑکوں کی صورتحا ل بہتر ہوئی ہے۔ لوگوں کو ترقی کےبعد ایک اچھا مستقبل نظر آ رہا ہے۔  اس چینی منصوبے کے ثمرات   مختلف  سماجی طبقا ت  تک  پہنچیں گے۔ لوگ اس منصوبے سے خوش ہیں۔


شیئر

Related stories