چینی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں کا نگریس

2017-10-20 15:10:05
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn


سلطان محمود حالیؔ<br>تجزیہ  نگار / مصنف

سلطان محمود حالیؔ
تجزیہ  نگار / مصنف

چینی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں کا نگریس 18اکتوبر 2017سے بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں شروع ہوئی۔ ایک ہفتہ تک جاری رہنے والی اس کانگریس کو چین کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع تصور کیا جاتا ہے۔ جوکہ ہر پانچ برس بعد منعقد ہوتا ہے۔ اور اس میں اہم سیاسی فیصلے کئے جاتے ہیں جن میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے چناؤ سے لے کر ملک کی تقدیر بدلنے اور ترقی سے متعلق اہم فیصلے کئے جاتے ہیں۔

اٹھارویں کا نگریس کے موقع پہ راقم بیجنگ میں موجود تھا اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے دنیا بھر سے ایک ہزار کے قریب صحافیوں میں واحد پاکستانی کی حیثیت سے اس اہم اجتماع سے متعلق خبریں اور مضامین ارسال کئے تھے۔2012 میں اٹھارویں کانگریس کے موقع پہ شی جنپنگ کو پارٹی کا چیئرمین اور چین کا سربراہ چنا گیا تھا۔

گزشتہ پانچ برسوں میں صدر شی جنپنگ نے جس انداز سے پارٹی اور ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور مختلف بین الاقوامی اجتماعات میں اہم فیصلے کئے وہ قابل تحیسن ہیں۔ دنیا کوفی الوقت مختلف مسائل درپیش ہیں۔ جن میں دہشت گردی پیش پیش ہے، اسکے علاوہ بگڑتے ہوئے معاشی حالات ، خانہ جنگی ،بھوک، افلاس، نا خواندگی، بیماری ،ماحولیات، کو خطرات قابل ذکر ہیں۔ عالمی سطح پر لیڈر شپ کا بھی فقدان ہے۔ ایسی صورتحال میں چینی صدر شی جنپنگ کی قیادت ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے کیونکہ وہ نہ صرف چین کو مزید ترقی کی راہ پہ گامزن کئے ہوئے ہیں بلکہ باقی دنیا کی کشتی کو بھنور سے نکال کر تحفظ کی جانب لے جانے کو کوشاں ہیں۔

انیسویں کانگریس کے موقع پہ صدر شی جنپنگ نے اپنی رپورٹ پیش کی جسکا لب لباب یہ ہے کہ چین کو ایک عظیم جدید سوشلسٹ ملک بنانے کی خاطر جامع منصوبہ بندی پہ منحصر دومراحل پہ مبنی منصوبے کا اعلان کیا گیا ۔ چینی قیادت نے پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ 2020ئتک چین کو اوسط درجے کا خو شحال ملک بنایا جائے گا اور اکیسویں صدی کے وسط تک عظیم جدید سوشلسٹ ملک تشکیل دیا جائیگا۔
صدرشی جنپنگ نے اپنی رپورٹ میں یہ خوش خبری سنائی کہ بجائے 2050کے2035تک چین اپنے معاشرے کو فروغ دے کر جدید عظیم سو شلسٹ ملک میں تبدیل کردے گا۔ اور ملک سے غربت، افلاس، بھوک، بیماری ،ناخواندگی اور پسماندگی کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔


صدر شی جنپنگ کی رپورٹ میں چین کی اقتصادی ترقی، قانون پہ مبنی حکومتی اصول وضع دینے، ماحولیاتی ترقی، فوجی میکا نائز یشن اور اعلیٰ سطح کی سفارت کاری کے ساتھ پارٹی کے لئے نئے اصلاحات کی تفصیلات کا ذکر تھا۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چین کو عظیم جدید سوشلسٹ ملک بنانے کی خاطر جامع منصوبے کی تفصیلات کا اظہار کیا گیا۔ چینی قوم اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے عظیم منصوبے اور اہداف کا اس وقت تک تذکرہ نہیں کرتی جب تک ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے ہوں اور اس میں بھی انکساری سے کام لیتی ہے۔ اس تاریخ ساز منصوبے کے خدوخال پیش کرتے ہوئے جناب شی جنپنگ نے جن اہداف کا ذکر کیا جو2035 تک پایہ تکمیل کو پہنچیں گے، وہ یہ ہیں: چین کو اقتصادی قوت سے ہمکنار کرنے کے علاوہ جدیدسائنسی ،تکنیکی اور جدت میں عالمی رہنما بنانے کا عزم ۔ یہاں یہ ذکرلازمی ہے کہ راقم نے اپنے حالیہ دورۂ چین میں کوانٹم فزکس اور خلا نوردی میں چین کی فتو حات کا قریب سے جائزہ لیا۔ گزشتہ مضمون میں جد ید ’’ اسمارٹ سٹی‘‘ کے قیام کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں۔
دو مرحلوں میں طے ہونے والی منصوبہ بندی میں چینی عوام کو مساوی حقوق مہیا کرنے کے علاوہ اپنی تقدیر بنانے اور حکومت کے فیصلوں میں شراکت داری مہیا کرنا اہم ترجیحات ہیں۔ علاوہ ازیں ملک، حکومت اور معاشرے کے لئے قانون کی بالادستی اہمیت کی حامل ہیں۔ انتظامی امور کی بہتری کی خاطر اداروں کو مضبوط بنانا لازمی ہے۔ چین کے نظام میں بہتری لائی جائے گی تاکہ حکومتی اموریعنی گورننس کیلئے صلاحیت میں پختگی آئے۔
چینی قیادت کو شدت سے احساس ہے کہ معاشی ترقی کے ساتھ معاشرے کی تربیت بھی ضروری ہے تاکہ عوام مہذب طریقے سے دنیا کے سامنے پیش ہوں۔ چین کی ثقافت اور تہذیب ہزاروں برس پرانی ہے اور اسکی بنیادیں عظیم روایات پہ مبنی ہیں۔ دنیا کو چینی تہذیب، تمدن اور ثقافت سے روشناس کرنے کی خاطر ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔

عوام کی فلاح وبہود اور معیار زندگی میں بہتری لانے کی خاطر دیہی اور شہری معاشرے کو یکساں ترقی سے ہمکنار کیا جائے گا۔ ایک جدید سماجی حکمرانی کا نظام اور ایک معاشرتی زندگی کو فروغ دینے کی خاطر ہم آہنگی ، جوش ، ولولہ اور نظم ضروری ہیں۔ ان سب ترقیاتی اہداف کے حصول کے ساتھ ساتھ ماحول کو آلودگی سے پاک کرکے خوبصورت چین کا قیام محض تصواراتی ہدف نہیں بلکہ حقیقت پہ مبنی خواب ہے، جسکی تعبیر 2035 تک یقینی بنائی جائے گی۔
اس جامع منصوبہ بندی کا انحصار سوشلزم سے متعلق سوچ جن میں چینی خصوصیات شامل ہیں پرہے۔ صدر شی جنپنگ نے واضح کیا کہ ایک جدید معاشرے کے حصول کی خاطر سوچ مارکسزم ، لین ازم، ماؤزے دنگ کے خیالات، دینگ ژیاؤ پنگ کی تھیوری، تین نمائندہ اصول اور جدید سانئسی ترقی کے اصولوں پہ عمل پیرا ہوگی۔

دنیا بھر کی نظریں چینی کمیونسٹ پارٹی کی پانچ سالہ کانگریس پہ گڑی ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہاں کئے گئے فیصلے دنیا کی تقدیر پہ بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ انیسویں کانگریس میں 2280نمائندے شریک ہوئے جن میں 24.2فیصد خواتین اور 11.5فیصد اقلیتی نمائندوں نے شرکت کی۔ ان2280شرکاء کے انتخاب کا طریقہ یہ تھا۔890لاکھ پارٹی کے ارکان نے انہیں منتخب کیا جنہوں نے4700ارکان پہ مشتمل کمیٹی چنی جسکے بعد کا نگریس میں شرکاء کا چناؤ ہوا۔ یہ شرکا ء چینی کمیونسٹ پارٹی کے آئین میں ترامیم پہ غور کرنے علاوہ پارٹی کے قائد، پولت بیورو، پولت بیورو کی اسٹنیڈنگ کمیٹی، ملیڑی کمیشن اور ڈسپلن انسپکشن کی مرکزی کمیٹی کا انتخاب کریں گے۔

یہ ہے چینی طریقہ جمہوریت جسے مغربی ناقدین سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بجائے امر یکی یابر طانوی طرز حکومت کو اپنانے کے ، چینی کمیونسٹ پارٹی میں ایسا نظام حکومت اور انتخاب کا طریقہ وضع کیا ہے جوچینی عوام کی مخصوص ضروریات کو پورا کرتا ہے اور ملک کو کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن کئے ہوئے ہے۔

چینی قیادت کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اپنے ملک کی ترقی کے علاوہ وہ دنیا کو اس کے مسائل سے نجات دینے کی خاطر کوشاں ہیں اور کم ترقی یافتہ ممالک کو ایسا بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے میں مدد دینے کی خاطر آگے بڑھ کر اقدام اٹھارہے ہیں جو دنیا بھر سے غربت، افلاس، بھوک ، ناخواندگی ، بیماری کو ختم کردے گی۔ ایک سڑک ایک پٹی یا جد ید شاہراہ رشیم ایسا ہی جامع منصوبہ ہے، جسکا اہم جز چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری ہے جو دنیا میں بہتر روابط پید اکرنے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ، ہم آہنگی، دوستی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرے گی جسکے باعث دنیا میں امن کی فضا قائم ہوسکے گی۔

 


شیئر

Related stories