چین بد عنوانی کے خاتمے کی مہم میں " کلین سویپ فتح " حاصل کرنے کے لیے پر عزم

2017-10-20 15:25:36
شیئر
شیئر Close
Messenger Messenger Pinterest LinkedIn

تحریر : شاہد افراز خان

چین بد عنوانی کے خاتمے کی مہم میں " کلین سویپ فتح  "  حاصل کرنے کے لیے پر عزم

چین بد عنوانی کے خاتمے کی مہم میں " کلین سویپ فتح  "  حاصل کرنے کے لیے پر عزم

چین کی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں قومی کانگریس کا با قاعدہ آ غاز ہو گیا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری شی جن پھنگ کی جانب سے افتتاحی اجلاس میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے مختلف امور میں چین کی جانب سے حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور اہم اہداف کا تعین کیا گیا ۔اگر رپورٹ کا ایک مجموعی جائزہ لیں تو ایک جانب جہاں شی جن پھنگ نے اپنی حکومتی کارکردگی اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حاصل کی جانے والی کامیابیوں پر روشنی ڈالی تو دوسری جانب انہوں نے چین کے بہتر اور روشن مستقبل کے حوالے سے اہم اہداف کا تعین بھی کر دیا  ۔جناب شی کی جانب سے کہا گیا کہ چینی خصوصیات کا حامل سو شلزم اب ایک " نئے عہد  " میں داخل ہو چکا ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے اکیسویں صدی کے وسط تک  چین کو ایک  عظیم اور جدید سوشلسٹ ملک بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے  ۔ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور یہی وجہ ہے کہ چینی قیادت دوررس اثرات کی حامل پالیسیاں ترتیب دے رہی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بار ہا یہ دیکھا گیا کہ چینی قیادت نے اس عزم کو  دوہرایا کہ چین کو ایک اعتدال پسند خوشحال معاشرے کی جانب لے جایا جائے گا لیکن ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی واضح کر دیا کہ چینی خصوصیات کا حامل سوشلزم نظام چین کی ترقی کی بنیاد رہے گا۔ان حقائق کی بنیاد پر بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے چین مغربی ممالک کی جانب سے اپنائے جانے  والے نظام سے مرعوب نظر نہیں آتا ہے بلکہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ چین نے صرف اپنی روایات و اقدار ، اپنے نظریات اور چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم نظام پر   عمل پیرا رہتے ہوئے انقلابی ترقی کی ہے جسے پورا عالم تسلیم بھی کرتا ہے۔ دو ہزار انچاس تک چین کے قیام کو سو برس مکمل ہو جائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ چینی قیادت کی جانب سے اکیسویں صدی کے وسط تک چین کو ایک خوشحال ، مضبوط ، جمہوری ، ثقافتی ترقی یافتہ ، ہم آہنگ اور خوبصورت ملک بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں ایک اور بات اہم ہے کہ چین چاہتا ہے کہ ترقی کا عمل عوام کی ضروریات کے عین مطابق ہو  یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوامی ضروریات کا دائرہ کار اب کافی وسیع ہو چکا ہے اور صرف مادی ضروریات کو پوار کرنا ہی کافی نہیں بلکہ  جمہوریت کے لیےعوامی مطالبات ، قانون کی حکمرانی کی خواہش ، معاشرے میں شفافیت اور انصاف تک رسائی ، سلامتی کا احساس اور ایک بہتر  صاف ستھرے ماحول کے حوالے سے  ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں۔ چین کی حکومت انہیں ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

 چینی قیادت کی جانب سے ایک طرف جہاں ترقی کی بات کی جاتی ہے تو وہاں دوسری جانب ترقی سے جڑے اہم پہلو بد عنوانی کے خاتمے کی اہمیت بار بار دوہرائی جاتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے اکثریتی کم ترقی یافتہ ، پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک کی ترقی کی راہ میں حائل ایک بہت بڑی رکاوٹ  بد عنوانی ہےجسے دور کیے بغیر ترقی کا حصول نا ممکن ہے۔بد عنوانی بلاشبہ کسی بھی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے اور تعمیر و ترقی کے راستے کو روک دیتی ہے۔چین اس لحاظ سے دیگر دنیا کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے جہاں بد عنوانی کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے ہیں ، بد عنوانی کی روک تھام کے لیے جہاں کمیونسٹ پارٹی کی اندرونی سطح پر  اقدامات کیے گئے ہیں وہاں سرکاری اداروں میں بھی نظم و ضبط اور بد عنوان عناصر کی حوصلہ شکنی کے لیے پالیسیاں  اور موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔چین نے بد عنوان عناصر کا احتساب کرتے ہوئے دیگر دنیا کے لیے ایک عملی مثال قائم کی ہے۔چین کے بارے میں بلاشبہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے یہاں احتساب سب کے لیے ہے ، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ، ایسا نہیں کہ با اثر اور طاقتور طبقات بد عنوانی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود بچ جائیں اور صرف کمزور طبقات ہی قانون کی گرفت میں آئیں۔ چین نے کمیونسٹ پارٹی کے عہدے داروں سمیت دیگر اہم سرکاری اہلکاروں کو بد عنوانی میں ملوث ہونے پر سزائیں سنائی ہیں اور چینی صدر کی جانب سے ایک بار اس عزم کو دوہرایا کہ چین بد عنوانی کے خاتمے کی مہم میں " کلین سویپ فتح " حاصل کرے گا۔

 چین کی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں قومی کانگریس میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں دنیا کے دیگر ممالک کے لیے  سیکھنے کا اہم پہلو غربت کے خاتمے کے اقدامات ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے اکثریتی ترقی پزیر ممالک اس وقت غربت کے مسئلے سے دوچار ہیں اور غربت کے باعث بے روزگاری جیسے مسائل بھی جن لے رہے ہیں۔ چین اگر گزشتہ تین دہائیوں میں کمیونسٹ پارٹی کی بہتر طرز حکمرانی اور موثر پالیسیوں کی بدولت ستر کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت کی دلدل سے باہر نکال سکتا ہے تو پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کیوں اسی چینی ماڈل سے استفادہ نہیں کر سکتے ۔غربت کے خاتمے کے لیے چین کے اقدامات ایک جانب جہاں لائق تحسین ہیں تو وہاں دوسری جانب دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے امید کی کرن اور روشنی کا چراغ ہیں۔چین آج بھی ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے عروج کی منازل طے کر رہا ہے۔ایسے میں ترقی پزیر ممالک کی جانب سے  چین کی ترقی کو  صرف سراہنا کافی نہیں ہے بلکہ یہ وقت چین سے سیکھتے ہوئے عملی اقدامات کا ہے۔ 


شیئر

Related stories