<![CDATA[متعدد امریکی سیاستدان بدستور سیاسی وائرس پھیلانے میں مصروف ، سی آر آئی کا تبصرہ]]>متعدد امریکی سیاستدان بدستور سیاسی وائرس پھیلانے میں مصروف ، سی آر آئی کا تبصرہ_fororder_0604国际锐评

امریکہ میں کچھ  لوگ  کووڈ -۱۹  کے ماخذ  کے بہانے  ایک بار پھر چین کو بد نام کر نے کی کوشش کررہے ہیں اور پوری دنیا میں " سیاسی وائرس " پھیلا  رہے ہیں ۔  یہ "امریکی بالادست" رویے کا ایک اور عملی  نمونہ ہے ، جو بلا شبہ اس وبا کے خلاف عالمی جنگ حتی کہ بین الاقوامی نظم و ضبط پر شدید منفی  اثر ڈالے گا ۔ اگرچہ امریکہ نے عالمی ادارہ صحت میں دوبارہ  شریک ہوکر کثیرالطرفہ  پسندی کا خوب ڈنڈورا  پیٹھا ہے لیکن اس نے عالمی ادارہ صحت کے چین میں تحقیقاتی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے ۔اور  اپنی انٹیلی جنس ایجنسی  کے ذریعے پہلے  سے ہی " جرم کا اندازہ " لگایا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے کچھ افراد کو حقائق  اور لوگوں کی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ ان کا مقصد صرف  چین کو بد نام   کر کے اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے ۔ آئیے اعداد و شمار  کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ  وبا کے خلاف عالمی جنگ میں چین نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ اب تک ، چین نے اس وبا سے متاثرہ ترقی پزیر ممالک کو 2 بلین امریکی ڈالر کی امداد فراہم کی ہے ، اور 150 سے زائد ممالک اور 13 بین الاقوامی تنظیموں کو وبائی امراض سے متعلق  سازوسامان فراہم کیا ہے اور خاص طور پر دنیا کو ویکسین کی 350 ملین سے زائد خوراکیں فراہم کی ہیں ۔ جس سے عالمی سطح پر  ویکسینوں کی  وسیع  پیمانے پر دستیابی میں مدد ملی ہے ۔ لیکن اس کے برعکس  امریکہ  پیشتر  ترقی پزیر ممالک  کی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے  بس چین کو بد نام کرنے میں مصروف رہا ہے ۔ جو انتہائی غیر زمہ دارانہ رویہ ہے ۔ عالمگیر مصیبت کے سامنے دنیا کے تمام لوگ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ۔ اس وقت وبا کے خلاف عالمی جنگ ختم ہونے سے کافی  دور ہے۔ ہم امریکہ کے متعدد سیاستدانوں کو مشورہ دیتے ہیں  کہ وہ فوری طور پر " سیاسی  وائرس"   پھیلانا بند کریں اور اتحاد اور تعاون کے صحیح راستے پر واپس آئیں۔

]]>