<![CDATA[امریکی بالادستی اور افغانستان میں انسانی حقوق، سی آر آئی کا تبصرہ]]>امریکی بالادستی اور افغانستان میں انسانی حقوق، سی آر آئی کا تبصرہ_fororder_1

پندرہ اگست کو افغان طالبان دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے اور امریکہ اور مغرب کی مدد سے قائم افغان حکومت گر گئی۔ امریکیوں کی نظر میں ، افغانستان وسطی ایشیا میں اسٹریٹجک گڑھ کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا جس میں انہوں نے 20 سال میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور دو ہزار سے  زائد امریکی فوجیوں کی جانوں کو ضائع کیا۔ اب امریکہ اپنے سیاسی مقاصد پورے ہونے پر وطن واپس چلا گیا ہے اور جاتے ہوئے اپنے پیچھے بے بس لوگ اور جنگ سے برباد افغانستان چھوڑ گیا ہے۔

امریکی بالادستی اور افغانستان میں انسانی حقوق، سی آر آئی کا تبصرہ_fororder_2

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دو دہائیاں قبل امریکی فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔اس واقعے کو بیس سال گزر چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہدف حاصل کر لیا گیا۔دراصل دہشت گردی اب بھی موجود ہے۔ اب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ یہاں ایک خاص مقصد کے لیے موجود تھا۔ چاہے انہیں اپنا مقصد حاصل ہوا ہے یا وہ افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں،اب امریکہ دہشت گردی کو مکمل طور پر نظر انداز کردے گا جو کہ اب بھی افغانستان اور اس کے ارد گرد علاقے میں خطرہ بن سکتی ہے۔ 

امریکی بالادستی اور افغانستان میں انسانی حقوق، سی آر آئی کا تبصرہ_fororder_3

افغان سکالر احمد صافی نے نشاندہی کی کہ پشتون قومیت افغانستان کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے، لیکن امریکہ دیگر نسلی گروہوں کی پشتونوں کی مخالفت کرنے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا  ہے، افغانستان میں خانہ جنگی کو ہوا دیتا ہے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا چلا آ رہا  ہے. "امریکہ کے اشتعال کے تحت ، زیادہ لوگوں نے لڑائی میں حصہ لیا ، اور افغانستان لامحالہ جنگ کے بھنور میں پھنس گیا ہے، اور سیکورٹی کی صورت حال بگڑ رہی ہے۔ یہ بھی امریکی حملے کی وجہ سے تھا کہ افغانستان اور افغان عوام امن کھو بیٹھے۔  کوئی ملک  سلامتی کے بغیر اقتصادی ترقی نہیں کر سکتا اور معاشی ترقی کے بغیر عوام اور بھی غریب ہو جائیں گے۔ یہ ایک شیطانی دائرہ ہے۔افغانستان میں  کئی دہائیوں سے جاری امریکی جنگ افغانستان کی مسلسل غربت کی بنیادی وجہ ہے۔

]]>