مغربی ممالک کو یوکرین بحران کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی ،امریکی اسکالر

2022/03/23 18:37:01
شیئر:

 19مارچ کو برطانوی اخبار ’’اکانومسٹ‘‘ کی ویب سائٹ پر امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے بین الاقوامی سیاسیات کے پروفیسر ،جان میئر شیمر  کا مضمون شائع ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ مغرب بالخصوص امریکہ کو یوکرین کے بحران کی  ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔
یوکرین کا مسئلہ ،اپریل 2008 میں بخارسٹ میں ہونے والے  نیٹو کے سربراہی اجلاس سے شروع ہوا تھا۔ اس وقت، جارج ڈبلیو بش انتظامیہ نے نیٹو کو یہ اعلان کرنے کو کہا کہ یوکرین اور جارجیا "رکن بن جائیں گے۔" روسی رہنماؤں نے فوری طور پر اسے روس کے وجود کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔ تاہم، امریکہ نے یوکرین کو روس کی سرحد پر "مغربی قلعہ" بنانے کے لیے ماسکو کی " ریڈ لائنز" کو نظر انداز کیا۔ فروری 2014 میں  امریکہ کی پشت پناہی سےیوکرین میں ایک سیاسی ہلچل پیدا کی گئی اور روس سے قریبی تعلق رکھنے والے یوکرینی صدر ملک سے فرار ہوئے۔  دسمبر 2021 میں یوکرین، نیٹو کا رکن بننے جا رہا تھا اور یہی معاملہ  جنگ کا براہ راست باعث بنا۔ ماسکو کے لیے یہ صورتِحال ناقابل قبول تھی اور واشنگٹن پر اپنے عزائم ظاہر کرنے کے لیے اس نے یوکرین کی سرحد پر فوجیں بھیجنا شروع کر دیں۔ لیکن اس عمل سے بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور بائیڈن انتظامیہ یوکرین کے قریب تر ہوتی چلی گئی۔

1990 کی دہائی کے اواخر سے،  امریکی خارجہ پالیسی کے متعدد ممتاز ماہرین نے نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع کے خلاف خبردار کیا تھا۔ بخارسٹ سربراہی اجلاس کے وقت امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے تسلیم کیا کہ "جارجیا اور یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش حد سے آگے بڑھ گئی ہے۔"
مضمون میں کہا گیا ہے کہ ہم ایک انتہائی خطرناک صورتحال میں ہیں اور مغربی پالیسیاں ان خطرات کو بڑھا رہی ہیں۔ روسی رہنماؤں کے لیے یوکرین کی صورتحال روس کے مستقبل کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ تاہم، امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کی امداد میں اضافہ کر رہے ہیں جبکہ اقتصادی پابندیوں کا استعمال کرتے ہوئے روس پر بھاری جرمانے عائد کر رہے ہیں۔ اگر مغرب یوکرین کے میدان جنگ میں ماسکو کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ روسی معیشت کو شدید اور دیرپا نقصان پہنچاتا ہے تو یہ ایک بڑی طاقت کو آخری کنارے تک دھکیل دینے کے مترادف ہے۔