کیا مغربی ممالک ایک وسیع اور متنوع دنیا کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں

2022/03/31 17:22:43
شیئر:

ہانگ کانگ ایشیا ٹائمز کی ویب سائٹ پر 29 مارچ کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں نشاندہی کی گئی کہ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہو گا اگر مغربی ممالک  ایسے وقت میں عالمی انتشار اور غیر یقینی صورتحال کا اصل محرک بن جائیں  جب بنی نوع انسان انتہائی پر امید تھی۔
مضمون میں آزاد تھنک ٹینک "گلوبل فیوچرز انسٹی ٹیوٹ" کے بانی اور سی ای او اور "کلب آف روم" کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن چھنگ زی جون کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ "جنگ صرف اسی صورت میں بری ہوتی ہے جب مغربی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں - ایسے ںظریات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں کہ سفید فام جانیں زیادہ قیمتی ہیں۔دنیا کے کونے کونے سے ان گنت ویڈیوز اور پیغامات بھیجے گئے ہیں جن میں عربوں، ہندوستانیوں، چینیوں، افریقیوں، جنوبی امریکیوں نے مغربی منافقت کی انتہا کو بے نقاب کیا ہے۔ "
اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادی ایک ایسی دنیا سے خود کو ہم آہنگ کر سکیں گے جو مزید وسیع، مزید متنوع اور مزید مسابقتی ہو چکی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور مغربی ممالک  تنہائی پسندی اور تحفظ پسندی کا رخ کرتے ہیں ،تو  مستقبل کے مورخین اسے مغربی تہذیب کی بنی نوع انسان کی ترقی کے بڑے موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکامی سے تعبیر کریں گے۔