"افغانستان میں گوانتاناموبے" ، بگرام کی تاریک جیل سےمتعلق انکشافات

2022/06/11 17:32:26
شیئر:

بگرام جیل کو افغانستان کا گوانتاناموبے بھی کہا جاتا ہے۔ امریکی فوج نے بگرام جیل کے تقریباً 20 سال کے انتظام کے دوران نہ صرف وہاں پر موجود قیدیوں پر وحشیانہ تشدد کیا بلکہ جیل سے رہا ہونے والے قیدیوں اور ان کے استقبال کے لیے آنے والے شہریوں پر بمباری بھِی کی گئی۔

2001 میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں جنگ شروع کرنے کے بعد، اس نے جلد ہی یہاں طالبان  ، مشتبہ دہشت گردوں یہاں تک کہ عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو حراست میں لینا شروع کر دیا۔ 2002 میں بگرام جیل میں ایک ہفتے کے اندر دو قیدی تشدد کے باعث  موت کے منہ میں چلے گئے  ۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق، 2006 تک، جن 15 امریکی فوجیوں پر فرد جرم عائد کی گئی تھی، ان میں سے زیادہ تر کو سزا نہیں دی گئی، اور انہوں نے زیادہ سے زیادہ صرف پانچ ماہ فوجی جیلوں میں گزارے۔ 2012 میں، افغان آئینی نگرانی کمیٹی نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ بگرام جیل میں قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا  اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ اس وقت کے افغان صدر نے متعلقہ محکموں سے بگرام جیل کو امریکی فوج سے اپنے قبضے میں لینے کو کہا، لیکن اس معاملے سے واقف لوگوں کے مطابق، جیل پر اصل کنٹرولر بدستور امریکی فوج کا ہی  ہے۔ اس وقت کی افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ جولائی 2021 میں بگرام ایئر بیس سے امریکی فوج کے انخلاء تک، بگرام جیل میں بدستور تقریباً 5000 افراد قید تھے تاہم سی این این نے ایک گمنام اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے تقریباً 7000 قیدیوں کا بتایا  ۔ امریکی فوج کے تشدد اور ناروا سلوک نے ان پر ایک ایسا سایہ دھبہ چھوڑا ہے جسے زندگی بھر مٹایا نہیں جا سکتا۔