حال ہی میں قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے امریکی عوام کی زندگیوں پر شدید منفی اثرات
مرتب کیے ہیں ۔ سروے کے مطابق بلند افراط زر امریکیوں کی اولین پریشانی بن گئی
ہےاور زیادہ تر امریکی ،بائیڈن انتظامیہ کی معاشی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔10
تاریخ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے روس کو امریکہ میں قیمتوں میں اضافے کا ذمہ
دار ٹھہرایا تھا۔ اس کے جواب میں اقوام متحدہ میں روس کے نائب نمائندے پولیانسکی نے
اپنے سوشل میڈیا بیان میں کہا کہ بائیڈن کا روس کو امریکہ میں مہنگائی کاذمہ
دارٹھہرانے کا بیان ناقابلِ یقین ہے۔
امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے10 جون
کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، مئی میں امریکی سی پی آئی میں گزشتہ سال کی
اسی مدت کے مقابلے میں 8.6 فیصد کا اضافہ ہوا، جو دسمبر 1981 کے بعد سال بہ سال سب
سے زیادہ اضافہ ہے۔
10 تاریخ کو لاس اینجلس دورے کے موقع پر امریکی صدر نے
اعتراف کیا کہ مہنگائی ہی وہ اصل چیلنج ہے جس کا امریکہ کو سامنا ہے، لیکن انہوں نے
اس کا الزام روس پر دھرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافہ یوکرین کے خلاف روس کے
خصوصی فوجی آپریشن کی وجہ سے ہوا ہے۔
پولیانسکی نے سوشل میڈیا بیان میں امریکی
صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے ذمہ داری سے کنارہ کشی
اور انحراف ناقابل یقین اور نا معقول ہے۔
روس -یوکرین تنازع بڑھنےکے بعد،
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کے خلاف پابندیوں کے کئی دور شروع کیے جس میں بہت
سے ممالک کو روسی توانائی درآمد کرنے سے منع کر دیا گیا یا پابندی لگا دی گئی ،جس
کے نتیجے میں تیل اور قدرتی گیس کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ روس نے
بارہا خبردار کیا ہے کہ روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر جوابی حملہ کیا جائے
گا۔
9 تاریخ کو نیشنل پبلک ریڈیو اور دیگر اداروں کے جاری کردہ مشترکہ سروے
نتائج کے مطابق، بائیڈن کی حمایت کی شرح 38 فیصد تک گر گئی، جو کہ اقتدار سنبھالنے
کے بعد سے نئی کم ترین سطح ہے۔