امریکی نائب صدر مائیک پینس نے مقامی وقت کے مطابق چوبیس تاریخ کو ایک تقریب میں چین کے حوالے سے ایک لیکچر دیتے ہوئے چین میں امریکہ کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا نیز "آزادی اور جمہوریت" کے نام پر چین پر بے بنیاد الزامات عائد کئے ۔ لیکن اس لیکچر میں انہوں نے چین کے ساتھ بات چیت اور تعاون کی تلاش کے حوالے سےبھی آگاہ کیا۔
تبصرے میں کہا گیا کہ گزشتہ چالیس برسوں میں چین اور امریکہ ایک دوسرے کے اہم ترین تجارتی شراکت دار بن گئے ہیں اور دونوں ممالک کےباہمی تعاون سے خاطر خواہ مفادات حاصل ہوئے ہیں ۔ لیکن امریکہ کے متعدد افراد نے خود کو " انسانی حقوق کے محافظ " بنا کر چین کی سنکیانگ کی پالیسی پر تنقید کر کے چین میں انسانی حقوق اور مذہب کی آزادی سمیت دیگر امور پر حملہ کیا ۔ دراصل چینی حکومت نے سنکیانگ کے سماجی استحکام کے تحفظ اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون کے مطابق اقدامات اختیار کیے ۔سنکیانگ میں اوسطاً ہر پانچ سو تیس مسلمانوں کے لئے ایک مسجد ہے اور سنکیانگ میں مساجد کی تعداد چوبیس ہزار چار سو تک جا پہنچی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں مذہبی عقیدے کی آزادی کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔لیکن اس کے برعکس کسی فرد کو مذہب کے نام پر سماجی نظم و نسق کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ ہانگ کانگ کے بارے میں پینس نے اپنے لیکچر میں ہانگ کانگ کی حقیقی صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں کے شر پسندوں کی حمایت کر کے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ۔
دوسری طرف قابل ذکر بات یہ ہے کہ پینس نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ چین سے الگ نہیں رہے گا ۔ صدر ٹرمپ امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی و تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے میں اتفاق پر پہنچنے کے لئے پر اعتماد ہیں ۔ یہ ایک مثبت اشارہ ہے جو چین اور امریکہ کے درمیان موجود مسائل کا بات چیت اور تعاون کے ذریعے حل تلاش کرنے میں فائدہ مند ثابت ہوگا۔