امریکی حکومت نے ستائیس تاریخ کو نام نہاد " ہانگ کانگ کے انسانی حقوق اور جمہوریت سے متعلق ایکٹ " کو قانونی شکل دے دی ۔ امریکہ نے اس اقدام کے ذریعے چین کے اندرونی معاملات میں سفاکانہ مداخلت کی ہے ۔ یہ ایکٹ عوام کی خواہشات کے خلاف ہے اور امریکہ کے متعدد سیاستدانوں کا پیش کردہ ایک سیاسی تماشا ہے ۔ چین اور عالمی برادری اس کی سخت مذمت کرتی ہے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعے بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی بنیادی اصولوں کی شدید خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ ہانگ کانگ چین کا ایک خصوصی انتظامی علاقہ ہے ۔اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ نمبر دو میں واضح طور پر "مساوی اقتدار اعلی " اور "کسی ملک کے دائرہ اختیار میں ہونے والے واقعات میں عدم مداخلت" جیسے اہم اصولوں کی وضاحت موجود ہے ۔ علاوہ ازیں سن انیس سو ستر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور شدہ بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے اعلامیے کے مطابق کسی بھی ملک یا ممالک کے گروہ کو کسی بھی وجہ سے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات یا خارجہ امور میں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کا حق نہیں ہے۔لیکن اس وقت امریکہ کیا کر رہا ہے ؟
اس وقت چین- امریکہ تعلقات کو کچھ مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ میں کچھ لوگ "صفر سم گیم" کی سوچ میں پھنس گئے ہیں ۔ یہ لوگ چین اور امریکہ کے درمیان تصادم اور محاز آرائی کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کیلئے "ہانگ کانگ کارڈ" بھی کھیل رہے ہیں۔ ان کا حتمی مقصد چین کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔لیکن انہوں نے اپنی طاقت کا زیادہ اندازہ لگایا ہےاور چینی حکومت کے مضبوط عزم ، خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو کم سمجھا ہے ۔ چین کا اپنے ملک کے اقتدار اعلی ، سلامتی اور ترقی کے تحفظ کا عزم غیر متزلزل ہے اور ایک ملک دو نظام کی پالیسی جاری رکھے گا ۔