حال ہی میں چین میں قید کی سزا کاٹنے والے سابق برطانوی صحافی پیٹر ہمفرے نے برطانوی اخبار " دی سنڈے ٹائمز " میں شائع اپنے ایک مضموں میں کہا کہ لندن کی ایک چھ سالہ لڑکی نے برطانوی ریٹیلر ٹیسکو سے ایک کرسمس کارڈ خریدا جس میں لکھا گیا ہے کہ "ہم شنگھائی چنگپو جیل میں غیر ملکی قیدی ہیں اور ہمیں کام کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ برائے مہربانی ہماری مدد کریں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مطلع کریں" ۔ اس کے بعد بی بی سی اور سکائی نیوز سمیت دیگر برطانوی میڈیا نےاس عجیب و غزیب واقعہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے چین پر بے بنیاد الزام لگانے کا آغاز کیا ۔
لیکن اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے ؟ برطانوی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس چینی کمپنی پر الزام عائد کیا گیا ہے جو چین کے جنوبی صوبہ زہ جیانگ میں واقع ہے اور یون گوانگ پرنٹنگ کمپنی کے نام سے موسوم ہے . یہ کمپنی معروف برطانوی ریٹیلر ٹیسکو کی سپلائر ہے۔ چائنا میڈیا گروپ کے تحت سی جی ٹی این کے خصوصی انٹرویو کے مطا بق برطانوی ذرائع ابلاع کے الزام کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا گیا ۔ اس کمپنی اور جیل انتظامیہ کے درمیان کسی قسم کے مراسم نہیں ہیں اور تمام کرسمس کارڈزچینی کارکنوں نے تیار کیے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانوی ریٹیلر ٹیسکو نے چائنا میڈیا گروپ کواپنے تحریری جواب میں کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ سپلائی کنندہ نے جیل میں قیدیوں سے مشقت لینے کی پابندی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس حوالے سے چین کی وزارت خارجہ نے بھی اپنے ردعمل میں کہا کہ چنگپو جیل میں غیر ملکی مجرموں کے لئے جبری مشقت نہیں ہے۔
یہاں تک بات صاف ہو گئی ہے کہ پیٹر ہمفرے کا نام نہاد الزام بالکل بے بنیاد ہے ۔یاد رہے کہ پیٹر ہمفرے اور ان کی بیوی نے سن دو ہزار تین سے غیرقانونی طور پر چینی شہریوں کی ذاتی معلومات کو جمع کیا اور ُپھر ان معلومات کو فروخت کیااور پیسے کمائے ۔ دو ہزار تیرہ میں چینی پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اس کے بعد اسے نو مہینے قید کی سزا سنائی گئی ۔ دو ہزار پندرہ میں اسے رہا کر دیا گیا ۔ اس کے بعد سے انہوں نے بار بار چین کو بد نام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ برطانوی میڈیا ایسی جعلی خبر کوکیوں وسیع پیمانے پر نشر کرتا ہے ؟ جواب صرف یہی ہے کہ چین کے بارے میں کچھ مغربی میڈیا کی بدنیتی ان کی گھٹی میں داخل ہوگئی ہے ۔ یہ لوگ اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات کو چھوڑ کر حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔
چین کس طرح کا ہے۔ چین میں آئیں اور خود دیکھ لیں ۔ پھر آپ کو پتہ چلے گا ۔