آج کل آسٹریلیا میں جنگل کی آگ کا سالانہ موسم ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں کے مقابلے میں رواں برس لگنے والی آگ بہت زیادہ سنگین ہے اور اس کے نتائج تباہ کن ہیں۔ مقامی وقت کے مطابق نو تاریخ کی صبح آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے کہا کہ اب تک پہاڑی آگ سے ستائیس افراد ہلاک اور دو ہزار ایک سو اکتیس مکانات تباہ ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں جانوروں کے ماہرین کے ابتدائی اندازے کے مطابق پچاس کروڑ جانور اس آتشزدگی سے ہلاک ہوگئے ہیں۔ تا حال آسٹریلیا میں آتشزدگی کا شکار رقبہ ایک کروڑ ایکٹر سے زیادہ ہے جو کہ جنوبی کوریا کے رقبے سے زیادہ بنتاہے۔یہ آگ اب جنوبی اور مشرقی آسٹریلیا کے پہاڑوں پر مزید آگے بڑھ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ دس تاریخ تک یہ آگ مشرقی ساحل تک پھیل جائے گی۔ جس سے تباہی مزید سنگین ہو جائےگی۔
چار ماہ سے زیادہ عرصے سے آسٹریلوی جنگلوں میں لگی ہوئی یہ آگ اتنے لمبے عرصے سے کیوں جل رہی ہے؟ اس کی براہ راست وجہ گلوبل وارمنگ سے وابستہ ہے۔ زیادہ درجہ حرارت اور کم بارش نیز سال بھر کی خشک سالی کی وجہ سے رواں سال جنگل کی آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ۔
تبصرے میں بتایا گیا کہ قدرتی آفات کے پیچھے انسانی عوامل بھی کار فرما ہیں۔ آسٹریلیا ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ فی کس کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے آسٹریلیا کو کاربن اخراج میں تخفیف کے لئے مزید اقدامات اختیار کرنے چاہییں ، لیکن حقیقت میں وہ آب و ہوا کی تبدیلی پر ہمیشہ منفی رویہ رکھتا ہے ۔
اس شدید خوف ناک صورتحال کے حوالے سے سابق آسٹریلوی وزیر خارجہ جولی بشپ نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا کے پاس ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر کوئی توانا پالیسی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آسٹریلیا جیسے ممالک خود مثال بنتے ہوئے اچھا کردار نہیں کرسکتے تو انہیں کیا حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے ممالک پر الزامات عائد کریں۔
اس وقت دباؤکے تحت سکاٹ موریسن نے ہچکچاتے ہوئے جنگل کی آگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مابین تعلق کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے موسمیاتی تبدیلی پر موثر اقدام اٹھانے کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ صورت حال سرمایہ درارانہ سوچ کے حامل کچھ مغربی ممالک کی انا پرستی اور حکمرانی کی کمزوراہلیت کی آئینہ دار ہے۔