چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی اور ریاستی کونسل کے زیر اہتمام نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایوارڈ ز کانفرنس دس تاریخ کو بیجنگ میں منعقد ہوئی۔ چین کی پہلی نسل کی جوہری آبدوز کے چیف ڈیزائنرہوانگ شو حوا اور مشہور ماحولیاتی سائنسدان زینگ جھینگ چھون نے سال ۲۰۱۹ کے لئے چین کا اعلی ترین سائنس وٹیکنالوجی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اس ایوارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چینی حکومت سائنسی مطالعہ کرنے والےباصلاحیت افراد کی بڑی قدر و احترام کرتی ہے اوریہی چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا راز ہے ۔سن ۱۹۹۹ میں چین کے اعلی ترین سائنس اور ٹیکنالوجی ایوارڈ کا آغازہوا ۔ اب تک ملک کے۳۳ سائنسدان اس ایوارڈ کو جیت چکے ہیں ۔ انہوں نے عہد حاضر میں سائنسی میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کی خدمات سے چین میں سائنسی شعبے کو نمایاں پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔
۲۰۱۹ نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایوارڈ ز کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر پوری دنیا کی توجہ چین کی سائنسی تخلیق اور جدت کاری کے نظام پر مرکوز ہے ۔ ۲۰۱۹ میں چین نے پراعتماد انداز میں سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور ملک کی ترقی کو آگے بڑھایا ہے ۔ عالمی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ چین کی جانب سے سائنسی شعبے میں حاصل کردہ تیز رفتار ترقی پر متجسس ہیں ۔ اگر وہ گزشتہ ستر سالوں میں چین کی سائنسی ترقی کی تاریخ کا جائز لیں تو وہ یہ جان پائیں گے کہ چینی سربراہوں کی دوراندیشی اور مثبت سوچ کے ساتھ ساتھ چینی ثقافت سے پیدا ہونے والا تخلیق اور انتھک جدوجہد کا جذبہ ،چین کی سائنسی ترقی کا بنیادی سبب ہے ۔ موجودہ دور میں انسان کو سائنسی انقلاب کے نئے دورکا سامنا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نئی پیش رفت حاصل کرنے کی کوشش کررہےہیں۔ چین بھی اس حوالے سے کام کر رہا ہے ۔ اس وقت چین نے دنیا کا سب سے مکمل سائنسی نظام اور سب سے بڑا "ٹیلنٹ سسٹم" تشکیل دے دیا ہے ، چین حقوق ملکیت دانش کی درخواستوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ چین سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ تعاون بھی کر رہا ہے ۔ اس طرح کھلے نظریے اور تعاون سے سائنسی شعبے کی ترقی، چین کی کامیابی کا ایک اور اہم سبب بھی ہے