پندرہ جنوری کو چین امریکہ جامع اقتصادی مذاکرات کے چینی رہنما لیو حہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں پہلے مرحلے کے چین امریکہ اقتصادی و تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ۔چین اور امریکہ نے تیئس ماہ تک تیرہ ادوار پر مشتمل اعلی سطحی مذاکرات کے بعد یہ مرحلہ وار کامیابیاں حاصل کی ہیں جو چین امریکہ تجارتی کشمکش کے حتمی حل کے لیے ایک مضبوط قدم ہے۔یہ معاہدہ چین امریکہ اور پوری دنیا کے مفاد میں ہے اور اس سے عالمی امن وخوشحالی کو فروغ ملے گا۔
پہلے مرحلے کے معاہدے میں نو باب شامل ہیں جو علمی اثاثہ جات ، ٹیکنالوجی کی منتقلی ، خوراک اور زرعی مصنوعات ، مالیاتی خدمات ، شرح تبادلے اور شفافیت ، تجارت میں توسیع ، دو طرفہ جائزے اور تنازعات کے حل سمیت دیگر موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔
چین کے تین بنیادی تحفظات (تمام اضافی محصولات کو منسوخ کرنے ، تجارت میں خریداری کے اعداد و شمار کو حقائق کی بنیاد پر بنانے اور متن کے توازن کو بہتر بنانے ) اور دو اصول( ڈ بلیو ٹی او کے قوائد اور مارکیٹ کے اصول) کو معاہدے میں شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ امریکہ کے کلیدی مطالبات کو بھی براہ راست ایڈریس کیا گیا ہے۔
موجودہ معاہدہ فریقین کے باہمی مفادات کا حامل توازن اور برابری کی بنیاد پرطے کیاگیا ہے ۔اس معاہدے کو عمل میں لانے کے لیے معاہدے میں دو طرفہ جائزےاور تنازعات کے حل کے باب میں اصول طے کیا گیا ہے جس کے مطابق کوئی بھی فریق اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔
پہلے مرحلے کے معاہدے پر دستخط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی تنازعات کو برابری کی بنیاد پر صلاح و مشورے کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے ،اس سے لوگوں کے چین اور امریکہ کے تجارتی مسئلے کے حل کی صلاحیت پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے ۔ تعاون سے چین اور امریکہ کو فائدہ مل سکتا ہے اور تنازعات سے دونوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔یہ بات تاریخ اور حقیقت سے بار بار ثابت ہو گئی ہے ۔ دونوں فریقوں کو تجارتی مسئلے کے حل کے دوران اس تجربے کے بارے میں غور سے سوچنا چاہیئے ۔