تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دو مارچ کی دوپہر تک ، دنیا بھر میں 60 سے زائد ممالک میں کرونا وائرس کی وبا کی موجودگی پائی گئی ہے۔ اس تناظر میں عالمی ادارہ صحت نے اس وبا کے عالمی خطرے کی درجے بندی کو "انتہائی زیادہ" کی بلند ترین سطح تک پہنچادیا ہے اور مرض کی تشخیصی کٹس ، حفاظتی سازوسامان ، آن لائن تربیت کے ساتھ ساتھ ضرورت مند ممالک کی مدد کے لئے بہت کچھ فراہم کیا ہے۔
اس مشکل وقت میں چین اپنے ملک میں وبا کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو مدد فراہم کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
دو مارچ کو چین نے جنوبی کوریا کو پانچ لاکھ ماسک عطیہ کئے،جاپان کو نیوکلک ایسڈ کا پتہ لگانے والی کٹس عطیہ کرنے کے علاوہ حفاظتی لباس اور ماسک عطیہ کئے۔اسی طرح چینی ریڈ کراس سوسائٹی کی ایک رضاکارٹیم فروری کے آخر میں تہران پہنچی تھی۔چین وبا کے انسداد کی عالمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔یہ ایک بڑے ملک کے ذمہ دارانہ رویے کی عکاسی ہے۔
تاہم ، کچھ مغربی سیاستدان ، جو اپنے مخصوص سیاسی مفادات رکھتے ہیں ، افواہیں گھڑنے اور چین کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔ان مغربی سیاستدانوں کے دماغ چین مخالف تجاویز سے بھرے پڑے ہیں۔
در حقیقت صحت عامہ کے عالمی بحران کو بین الاقوامی تعاون کو مستحکم کرنے کا ایک موقع ہونا چاہئے ، اور اسے "سیاسی دکانداری چمکانے"کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ اس وبا کے خلاف موجودہ عالمی جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں "مواقع کی کھڑکی" کو کیسے گرفت میں رکھنا ہے؟ تعصب کو ترک کرنا ، رکاوٹیں ختم کرنا ، سائنس سے سبق سیکھنا ، متحد ہونا اور تعاون کرنا واضح طور پر یہ واحد صحیح انتخاب ہے۔