چین سے معافی کا مطالبہ ایک مضحکہ خیز اور نا پسندیدہ فعل ہے، سی آر آئی کا تبصرہ

CRI2020-03-05 21:57:57

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے زیراہتمام ایک حالیہ میڈیا بریفنگ میں ، ڈائریکٹر جنرل ٹین دیسائی نے اس وبا کے خلاف عالمی جنگ میں سامنے والے بدنما داغ پر گہرے رنج کا اظہار کیا۔اس وبا کا پتہ لگانے والے ابتدائی ملک کی حیثیت سے ، چین کو سب سے نمایاں "بدنما" حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ میں فاکس ٹی وی کے میزبان نے یہ دعویٰ کیا کہ "نوول کورونا وائرس چین میں شروع ہوا" لہذا چینی قوم دنیا سے باضابطہ معافی مانگے۔

در حقیقت ، اس حوالے سے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کورونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔ چین بھی دوسرے ممالک کی طرح ، وائرس کا شکار ہے۔

چین کا دورہ کرنے والی عالمی ادارہ صحت کی معائنہ ٹیم نے چین کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف اختیار کئے جانے والے اقدامات کی شاندار الفاظ میں تحسین کی ہے۔ ٹیم کے مطابق چین نے اپنی عوام کے تحفظ کے ساتھ عالمی برادری کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا ہے۔

یہ وبا عالمی سطح پر پھیل رہی ہے۔ چار تاریخ کی شام چھ بجے تک چین سے باہر 76 ممالک میں تیرہ ہزار سے زائد افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ امریکہ سمیت کچھ ممالک میں ایسے مریض سامنے آئے ہیں جو کبھی چین نہیں گئے تھے اور نہ ہی تصدیق شدہ مریضوں کے سامنے نہیں آئے تھے۔

اس دعوی کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ یہ وائرس چین میں شروع ہوا تھا۔ کچھ میڈیا اداروں نے انتہائی غیر ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے نول کورونا وائرس کو "چینی وائرس" کو قرار دیا ہے۔ اب نام نہاد "چینی معافی" کی درخواست اس سے بھی زیادہ غیر معقول اور مضحکہ خیز ہے۔

عالمگیریت کے اس دور میں مشترکہ حکمت عملی ، یکجہتی اور تعاون اس وبا کے خلاف سب سے طاقتور ہتھیار ہیں۔انسان کو سائنس سے لاعلمی پر قابو پانے اور تعاون کے ساتھ تعصب کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

چین سے معافی کا مطالبہ ایک مضحکہ خیز اور نا پسندیدہ فعل ہے، سی آر آئی کا تبصرہ


Not Found!(404)