اس وقت نوول کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک کے اقدامات میں تیزی آئی ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔یورپی ممالک بھی وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے لازمی اقدامات کر رہے ہیں۔کووڈ۔19کی عالمگیر وبائی صورتحال کے خلاف جنگ اس وقت ایک نازک موڑ میں داخل ہو چکی ہے ۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈاہانوم گیبریسس بھی چین سے باہر دیگر ممالک میں نوول کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسوں کے تناظر میں یورپ کو وبا کا مرکز قرار دے چکے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا کے ایک سو تیئیس ممالک اور خطوں میں مریضوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ بتیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پانچ ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
اس صورتحال میں مغربی میڈیا بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ دنیا نےنوول کورونا وائرس کی روک تھام و کنٹرول کے لیے چین کے بروقت اور موثر اقدامات کے تحت دی گئی " قیمتی مہلت" سے استفادہ نہیں کیا ہے۔
چین کے صدر شی جن پھنگ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بارہ تاریخ کو کی جانے والی ٹیلی فونک بات چیت میں انسداد وبا کے حوالے سے مربوط اور طاقتور اقدامات سے متعلق بتا چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ وبائی صورتحال نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ پوری انسانیت ایک ہم نصیب سماج کی مانند ہے۔ عالمی برادری کو اپنے اقدامات میں تیزی لانا ہو گی اور عالمگیر تعاون کے تحت وبا کو شکست دینا ہو گی۔شی جن پھنگ نے مختلف عالمی رہنماوں سے بات چیت میں بھی وبا کے خلاف مشترکہ اقدامات اور یکجہتی کو اجاگر کیا ہے۔
درحقیقت چین وبا کے خلاف اس عالمی جنگ میں ٹھوس عملی اقدامات پر عمل پیرا ہے اور چین کی جانب سے پاکستان ،جاپان،جنوبی کوریا ،ایران ،اٹلی ،عراق اور دیگر کئی ممالک کو امدادی سازو سامان فراہم کیا گیا ہے اور طبی ماہرین بھی بھیجے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چین کے اقدامات کی تحسین کی گئی ہے۔