امریکہ کو کورونا وائرس کے منبع کے حوالے سے عالمی برادری کے شکوک کا جواب دینا ہو گا ،سی آر آئی کا تبصرہ

CRI2020-03-16 14:22:56

حالیہ دنوں وبائی امراض پر قابو پانے اور ان کی انسداد کے امریکی مرکز یعنی سی ڈی سی کے ڈائریکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ نے ایوان نمائندگان میں کورونا وائرس سے متعلق منعقدہ ایک سماعت میں تسلیم کیا ہے کہ امریکہ میں کووڈ-۱۹ سے ہلاک ہونے والے کچھ کیسز کو فلو کیسز کے طور پر تشخیص کیا گیا تھا۔

دراصل فروری میں جزیرہ ہوائی کی سیر کر کے آنے والے جاپانی جوڑے کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ،جس کے بعد "کورونا وائرس کا آغاز امریکہ سےہوا " کا شبہہ مزید مضبوط ہوا ہے۔اکیس فروری کو جاپان کے آساہی ٹیلی ویژن نے اپنے ایک پروگرام میں اس شک کا اظہار کیا کہ امریکہ میں کووڈ-۱۹ کے مریضوں کو فلو کیسز کے طور پر تشخیص کیا گیا ہے مگر اس وقت سی ڈی سی نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کر دیا تاہم محض بیس دن کے بعد سی ڈی سی کے ڈائریکٹر کا اسی بات کو تسلیم کرنا تعجب خیز ہے۔

یہاں کچھ اہم واقعات اور حقائق پر نظر ڈالتے ہیں ، امریکہ میں فلو سیزن ستمبر دو ہزار انیس سے شروع ہوا۔اکتوبر میں امریکی فوجی کھلاڑی ملٹری گیمز میں شرکت کے لیے وو ہان آئے جس کے دوران دیگر غیرملکی کھلاڑی بیرونِ ملک سے آئی ہوئی وبائی بیماری کا شکار ہوئے ۔دسمبر میں وو ہان میں کووڈ-۱۹ کا پہلا کیس سامنے آیا۔ حالیہ دنوں ایک اور اطلاع بھی لوگوں کی نظر میں آئی ہے کہ جولائی دو ہزار انیس میں فورٹ ڈیٹریک میں امریکی فوج کا وبائی امراض پر تحقیق کرنے والا خفیہ ترین طبی ادارہ بند کر دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ چین کے تائیوان علاقے میں کچھ سائنسدانوں نے چین ، ایران اور اٹلی میں وائرس کے ڈی این اے کے بارے میں تحقیق کی جس سے ظاہر ہے کہ ایران اور اٹلی میں پھیلنے والے کورونا وائرس کا ڈی این اے چین میں پھیلے وائرس سے مختلف ہے ، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وائرس کا منبع چین میں نہیں۔

ان حقائق کی بنیاد پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال جڑ پکڑ رہا ہے کہ کیا یہ وائرس واقعی امریکہ سے شروع ہوا ہے؟ دنیا میں وبائی صورتحال سنگین ہو رہی ہے۔ امریکہ کو سائنس اور حقائق کی بنیاد پر کورونا وائرس کے منبع کی تحقیق کرنی چاہیے اور دنیا کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیئے ۔ یہ وائرس کی وبا کی روک تھام اور اس پر قابو پانے نیز عالمی صحت عامہ کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔


Not Found!(404)