برطانوی ذرائع ابلاغ کی حالیہ اطلاعات کے مطابق برطانوی تھنک ٹینک ہنری جیکسن سوسائٹی کی جانب سے ایک نام نہاد تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں چین پر ، وبا کی معلومات کو چھپانے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ چین کو کووڈ-۱۹ کی وبا کے پھیلاو کی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی ۔ رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ عالمی برادری کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیئں اور چین سے اس نقصان کامعاوضہ مانگنا چاہیئے۔
مذکورہ بات بالکل مضحکہ خیز ہے۔چین نے بہت بڑی قربانی دے کر دنیا بھر میں انسداد وبا کے لیے اولین دفاعی لائن قائم کی اور قیمتی مہلت بھی فراہم کی ۔ ستائیس دسمبر دو ہزار انیس کو چین کے صوبہ حوبے میں واقع ایک ہسپتال نے پہلی مرتبہ نامعلوم قسم کے نمونیا کیسز رپورٹ کیے تھے۔اکتیس دسمبر دو ہزار انیس کو چین میں تعینات عالمی ادارہ صحت کے دفتر کو اس بارے میں اطلاع دی گئی ، تین جنوری دو ہزار بیس کو چین نے اس بارے میں دی جانے والی آگہی کے عمل کو مکمل کیا۔ سات جنوری کو کرونا وائرس کی شناخت کی گئی اور پھر بارہ جنوری کو وائرل کے ڈی این اے کے بارے میں مکمل تفصیلی معلومات عالمی ادارہ صحت کو دی گئیں ۔ اس کے بعد سے چین روزانہ کی بنیاد پر تازہ ترین اعدادوشمار جاری کررہا ہے۔چین مسلسل ،شفاف انداز میں معلومات جاری کرتا آ رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ چین عالمی ذمہ داری کی ادائیگی میں ایک نئی مثال بن گیا ہے۔ایسی صورتحال میں آخر مغربی ممالک کے کچھ لوگ چین کا احتساب کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
یہ بات قابل غور ہے کہ برطانیہ میں دائیں بازو کے کچھ سیاستدان ، دائیں بازو کے اسکالرز کی کھلے عام یا خفیہ طورپر حمایت کررہے ہیں اور موجودہ انتظامیہ کے سست ردعمل کو چھپانے کے لیے اس سب کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوشش میں ہیں ۔ ادھر امریکی کانگریس کے بعض ارکان حال ہی میں وبا سے نمٹنے کے لیے چین کے اپنائے گئے اقدامات کی بین الاقوامی تحقیقات کروانے کی کوشش کررہے ہیں اور چین سے معاوضہ مانگنا چاہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ دائیں بازو کے یہ سیاستدان بحر اٹلانٹک کے پار تعاون کے ذریعے چین کو بد نام کرنے کی بھرپور کوشش کرہے ہیں۔
ان سیاستدانوں کے عمل انسداد وبا کے عالمی تعاون میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں اور چین کے بجائے ان کا احتساب کیا جانا چاہیئے۔