وبا پھیلنے کے بعد ، واشنگٹن کے کچھ سیاست دان وبا کے خلاف جنگ میں اپنی ناکامی چھپانے کے لئے خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں ۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بار بار نوول کورونا وائرس کو "ووہان وائرس"قرار دیا اور بین الاقوامی سطح پر نسل پرستی کا یہ تصور پیش کیا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشیل بیچلیٹ نے حال ہی میں نشاندہی کی ہے کہ اس وبا نے کچھ گہرے تعصبات کو بے نقاب کیا ہے ۔ زینو فوبیا اور نفرت انگیز تقا ریرمیں اضافہ تشویشناک ہے۔
امریکی معاشرے میں نسل پرستی کا مسئلہ ایک طویل عرصہ سے موجود ہے اور یہ امریکہ کے طرز حکمرانی کے نظام میں ایک مستقل مرض بن چکا ہے۔ وائٹ ہاؤس سے لے کر کیپٹل ہل تک ، یکے بعد دیگرے نسل پرستانہ شور نے رنگ کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ سلوک میں ہونے والی ناانصافی کو مزید ابتر کردیا ہے ، اور وبا سے لڑنے کے مشکل را ستے میں نئی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے ایک سروے کے مطابق ، اس وبا کے تحت ، لادینی نژاد امریکی شہریوں اور افریقی نژاد امریکی شہریوں کے لئے بے روزگاری کی شرح بالترتیب 20٪ اور 16٪ ہے ، جبکہ سفید فام شہریوں کیلئے یہ شرح صرف 11٪ ہے۔ اس اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ وبا کے دوران امریکہ میں اقلیتوں کے حقوق کو زیادنقصان پہنچا ہے۔امریکی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ لوگوں کو تقسیم کرکے ان میں ایک دوسرے کیخلاف نفرت پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ حا صل کیا جاسکتاہے۔ اس لئے وہ امریکہ کو "تاریکی اور نفرت" کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ تاہم ، جو لوگ نسلی منافرت کو ہوا دے رہے ہیں ، خود بھی نفرت کا نشانہ بنیں گے۔