صحافیوں کو مارتے ہوئے " اظہار رائے کی آزادی " کہاں گئی؟ " سی آر آئی کا تبصرہ

CRI2020-06-03 20:10:32

صحافیوں کو مارتے ہوئے " اظہار رائے کی آزادی " کہاں گئی؟ " سی آر آئی کا تبصرہ

اس وقت امریکہ احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں ہے ۔ پولیس کی جانب سے بہت سےصحافیوں کو انتہائی وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔فرانسیسی ذرائع ابلاغ اے ایف پی کی تین جون کی اطلاع کے مطابق گزشتہ ہفتے میں میڈیا کے نگرانی کرنے والے اداروں نے بڑی تعداد میں ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن میں پولیس صحافیوں کو مار رہی ہے ۔ اس کے تناظر میں امیریکن براڈکاسٹنگ اینڈ ٹیلی ویژن ڈیجیٹل نیوز ایسوسی ایشن کےچیف آپریٹنگ آفیسر ڈین شیلی کا کہنا تھا کہ اس سے نا صرف صحافیوں بلکہ عام شہریوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجرک نے بھی واضح کیا کہ جب صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو پورے معاشرے کو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔روس کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے قانونی حقوق کی خلاف ورزی "ناقابل قبول" ہے۔آسٹریلیا کے وزیر اعظم ماریسن نے بھی اپنے صحافی کے خلاف واقعے کی تحقیقات کی درخواست کی اور کہا کہ آسٹریلیا باضابطہ طور پر اپیل کرنے کے لیے تیار ہے ۔

لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ کوویڈ -۱۹ کے پھیلاو کے بعد امریکی سیاستدان صحافیوں کے سوالات کے جواب میں یا تو جھوٹ بولتے ہیں یا اپنی تعریف کرتے ہوئے دوسروں پر الزام لگاتے ہیں ۔ کئی مرتبہ انہوں نےصحافیوں پر سخت تنقید کی اور سوال کا جواب دیے بغیر چلے گئے ۔

اس وقت امریکہ میں وبا سے متاثرہ تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ پچاس ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور وسیع پیمانے پر ہونے والے مظاہرے ملک کے ایک سو چالیس شہروں میں پھیل گئے ہیں ۔ لیکن امریکہ کے متعدد سیاست دان بدستوراپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے میں مصروف ہیں ۔ وہ میڈیا اور شہریوں پر دباو ڈال کر اپنی نااہلی اور ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔


Not Found!(404)