افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہرے اس وقت امریکہ بھر میں پھیل چکے ہیں۔ ایسے میں جہاں بین الاقوامی برادری امریکہ میں نسل پرستی کی مذمت کر رہی ہے ، وہاں کچھ مغربی رہنما ، جو ہمیشہ "جمہوریت" اور "انسانی حقوق" کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں ، اس حوالے سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔
در حقیقت ، چند مغربی ممالک پہلے ہی سے امریکی روش پر عمل پیرا ہیں لہذا اُن میں امریکہ میں نسل پرستی پر تبصرہ یا نکتہ چینی کی ہمت نہیں ہے۔
دوسری جانب یہ مغربی ممالک خود بھی نسلی امتیاز کے مسائل کا شکار ہیں ۔ مغربی ممالک جیسے برطانیہ ، آسٹریلیا ، کینیڈا وغیرہ میں ، سماجی نظام اور "امیر و غریب" کی تفریق سمیت دیگر پیچیدہ اسباب کی بناء پر رنگ ونسل اور اقلیتی قومیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک میڈیا میں بارہا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں ، چند مغربی سیاستدان نسل پرستی کے مسائل پر کسی واضح موقف کا اظہار نہیں کر سکتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مغربی سیاستدان اپنے ممالک میں نسلی امتیاز کے بارے میں بے بس ہونے کے باوجود بیرون ملک نسل پرستی کو بھڑکانے اور ترقی پذیر ممالک کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔نسلی امتیاز امریکی معاشرے اور مغربی ممالک کے لئے انتہائی شرمناک ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے میں "دوہرا معیار" اپنانے سے اپنا تحفظ نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے یہ مسئلہ حل ہو گا۔
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میشیل بیچلیٹ ایک بیان میں واضح کر چکی ہیں کہ امریکہ میں " نسل پرستی" اور "واضح عدم مساوات" وسیع پیمانے پر مظاہروں کی اصل وجوہات ہیں ، اور اب گہری اصلاحات کا وقت آچکا ہے۔