ایک ملک دو نظام کی پالیسی کو برقرار رکھنے اور بہتر بنانے"کے موضوع پر عالمی سیمینار حال ہی میں چینی شہر شن زن میں منعقد ہوا۔ چین،روس،برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے تقریباً دو سو اسکالرز نے اس میں شرکت کی۔شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کے قانون کو تیار کرنا ہانگ کانگ میں سماجی نظم و نسق کی بہتری کا موقع بن جائے گا اور "ایک ملک دو نظام"پر پائیدار طور پر عمل کی اہم ضمانت ہوگا۔
قومی سلامتی کا قانون ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی گھر کے لیے ایک دروازہ لازمی ہوتا ہے۔قومی سلامتی کا تحفظ مرکزی حکومت کا دائرہ اختیار ہے۔سیمینار میں شریک کچھ ماہرین نے نشاندہی کی کہ قومی سلامتی کو سنگین نقصان پہنچنے کی صورت میں ہانگ کانگ میں قومی سلامتی قانون سازی "ایک ملک دو نظام"پالیسی کو بہتر اور مکمل بنائے گا جس سے ہانگ کانگ میں نئی جان پیدا ہوگی۔
قومی سلامتی سے متعلق قانون سازی سے عالمی سرمایہ کاروں کوبھی مثبت اشارہ مل رہا ہے۔ دی واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں سابق امریکی تجارتی مذاکراتی نمائندہ جیف مون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ "چین سے نکلنا کوئی انتخاب نہیں ہے۔"پوری دنیا کے بڑے صنعتی ادارےچائنیز مین لینڈ کو سروس فراہم کرنے کیلئے ہانگ کانگ میں رہنا چاہتے ہیں ۔
اس وقت ہانگ ہانگ کے رہنے والوں میں ہانگ کانگ میں افراتفری پیدا کرنے والے پرتشدد عناصر سے دوری اختیار کرنا اہم رجحان ہے۔قومی سلامتی قانون سازی کے عمل کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ میں سماجی نظم و نسق بتدریج بحال ہو رہا ہے ۔قانونی اور کاروباری ماحول کو بہتر بنایا جارہاہے۔ ہانگ کانگ بحیثیت عالمی مالیاتی،ایوی اشن اور تجارتی مرکز مزید مضبوط ہوگا اور وہاں مختلف ممالک کی کمپنیوں کوترقی اور کاروبار کا مزید بہتر ماحول میسر ہوگا۔ہانگ کانگ کا مستقبل مزید روشن ہوگا۔