امریکی سینیٹ نے حال ہی میں نام نہاد "ہانگ کانگ خود مختاری ایکٹ" منظور کیا ، جس میں ہانگ کانگ کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے والے افراد ، مالیاتی اداروں سمیت دیگر اداروں پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اپنے ملک میں بیٹھ کر اپنا دائرہ کار دور تک پھیلانے کا یہ رویہ واضح طور پر چین کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے ، جس نے نا صرف جدید بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں اور تعلقات کے بنیادی ضوابط کو بری طرح پامال کیا ہے بلکہ ہانگ کانگ کے انتشار کو ہانگ کانگ کے خلاف استعمال کرنے کے لیے کچھ امریکی سیاست دانوں کے مذموم عزائم کو مزید بے نقاب کیا ہے ، جس کی عالمی برادری نے شدید مذمت کی ہے۔
ہانگ کانگ کا معاملہ خالصتاً ،چین کا اندرونی معاملہ ہے ۔ جیسا کہ ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے کی حکومت کے ترجمان نے چھبیس جون کو کہا کہ ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے میں "ایک ملک ، دو نظام" کے اصول کا نفاذ مکمل طور پر چین کا اندرونی معاملہ ہے ، اور کسی دوسرے ملک کو مداخلت کا حق نہیں ہے۔ ہانگ کانگ کی حکومت کے سابق سیکریٹری برائے انصاف لیانگ عےشی نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ہانگ کانگ سے متعلق قومی سلامتی کے قانون سے "ایک ملک ، دو نظام" بالکل بھی متاثر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے "ہانگ کانگ پر حکمرانی کرنے والے ہانگ کانگ کے لوگ" متاثر ہوتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے نام نہاد "پابندیوں کا یہ پلندہ "ردی کے کاغذات سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ہانگ کانگ کا مستقبل اور مقدر ہمیشہ ہانگ کانگ کے ہم وطنوں سمیت ایک ارب چالیس کروڑ چینی عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم امریکی سیاستدانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ چین کے اندرونی معاملات میں فوری مداخلت بند کردیں ، یا ان کی توانائیاں صحیح سمت پر منتقل کریں ۔نام نہاد "اپنا دائرہ کاردور تک بڑھانے " کی چالوں میں مصروف ہونے کی زحمت نہ کریں۔