چین میں روبوٹ سازی کی صنعت عروج پر
حکومت، نئے خیالات کے حامل افراد، سرمایہ کاروں اور بڑے تکنیکی اداروں کے باہمی تعاون نے عالمی منڈی میں چین کی ربوٹ سازی کی صنعت کو ممتاز مقام دلا دیا ہے۔
چین کی کمپنی ہٹ کے تیار کردہ ربوٹس جاپان کے ایک ادارے میں شیلفوں پر اشیا رکھتے اور اٹھاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ جو چین کی ربوٹ سازی کی صنعت کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ روبوٹس مختلف نوعیت کے حساس سینسرز سے آراستہ ہیں۔ ٹیڑھے میڑھے راستوں پر بغیر ٹکرائے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے ان خود کار روبوٹس نے کام رفتار اور کوالٹی کو بہت زیادہ بہتر بنا دیا ہے۔
جاپان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانی لیبر یا تو دستیاب نہیں اگر ہے تو بہت زیادہ مہنگے داموں دستیاب ہے۔ جس کی وجہ سے فیکٹریوں کو پیداوری امور میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ای کامرس کے ماہرین جانتے ہیں کہ ہر ادارے میں ہر سال دو دور آتے ہیں پہلا جب آرڈر بہت زیادہ ہوتے ہیں دوسرا جب کام نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ تو اس دوران لیبر کا توزن قائم رکھنا ایک اہم مسئلہ بن جاتا ہے۔ ان روبوٹس نے یہ مشکل بھی با آسانی حل کردی ہے۔ کام کے دنوں میں یہ دن رات خوب کام کرتے ہیں اور جب آرڈر کم ہوتے ہیں انہیں ان کے پارکنگ ایریاز میں حفاظت سے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ہر روز نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ اسی طرح سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر میں ہونے والی روز افزوں ترقی نے چین میں ربوٹ سازی کی صنعت کو بھی نئی جہتوں سے متعارف کروایا ہے۔ چین کا ایک اور ربوٹ ساز ادارہ ایچ آر جی عالمی سطح پر کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف دنیا بھر کو اعلی کوالٹی کے روبوٹس فراہم کرتا ہے بلکہ ربوٹس کے حوالے کام کرنے والے دیگر عالمی اداروں کی معاونت بھی کرتا ہے۔
اس ادارے کے روح رواں مسٹر یو کے مطابق" اگر ہم بین الاقوامی معیار کے مطابق ایک منظم اور مربوط ربوٹ ساز صنعت کو مزید فروغ اور وسعت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں دنیا کے دیگر اداروں کےساتھ بات چیت کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ ہم اچھی اور دیرپا مصنوعات متعارف کراسکیں۔"
مسٹر یو کا مزید کہنا تھا" آج کے روبوٹ ماضی کی نسبت مصنوعی ذہانت سے لیس ہیں اور اس کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے مختلف سافٹ وئیر ہاوسز کا کافی اہم کردار ہے۔ لہذا مقابلے کے اس دور میں ہم ایک دوسرے کی مہارتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنے کے لئے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں"۔
چین میں ربوٹ سازی کی ترقی کسی فرد واحد کی مرہون منت نہیں یہ حکومت، نئے خیالات کے حامل افراد، سرمایہ کاروں اور بڑے تکنیکی اداروں کے باہمی تعاون کا نتیجہ ہے۔ سب کی مشترکہ کاوش نے چین میں روبوٹ سازی کو ایک کامیاب صنعت کا درجہ دے دیا ہے چین میں صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر جناب میاو وی جن کی نگرانی میں صنعتی ترقی کا پہیہ تیزی سے آگے جانب بڑھ ہے۔ اس شعبے کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرہے ہیں ۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ" چین کی حکومت روبوٹ سازی کی صنعت کی ترقی کے لئے ہر ممکن سہولت بہم پہنچانے کے لئے سر گرام عمل ہے۔ حکومت مقامی روبوٹ ساز اداروں اور بین الاقوامی منڈی میں موجود اداروں کے درمیان تعلق کے فروغ کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ صحت سمیت دیگر تمام شعبوں میں ربوٹس کے استعمال کے لئے ہونے والی کاوشوں کی تحسین کی جائے گی"۔
جناب میاو وی نے اس حوالے سے مزید کہا" چین دنیا کی سب سے بڑی روبوٹ مارکیٹ کے طور پر عالمی برادری کو خوش آمدید کہتا ہے اور یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اس ترقی یافتہ صنعت سے مستفید ہو۔ چین خواہاں کہ عالمی شراکت داروں سے مل کر بین الاقوامی منڈی تشکیل دے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ ماہ ہونے والی ورلڈ روبوٹکس کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کیا تھا۔ یاد رہے کہ اگست کے مہینے می بیجنگ میں ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں پندرہ ممالک کی ایک سو ساٹھ سے زائد کمپنیوں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
چین میں روبوٹ سازی سے متعلق چند اہم حقائق
· چین میں 61 فیصد روبوٹس صنعتی مقاصد ، 28 فیصد خدمات کے شعبے کے لئے اور 11 فیصد صارفین کی ضرورت کے مطابق تیار کئے جاتے ہیں۔
· چین کی روبوٹ سازی کی صنعت ہر سال تیس فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔۔
· روبوٹ ساز ادارے ہٹ اور چین میں سائنس و ترقی کی رفتار پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں اس صنعت کی مالیت ایک سو بیس بلین یوان سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔
· انٹرنیشنل روبوٹس فیڈریشن کے اعداد وشمار کے مطابق جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سن 2013 میں چین صنعتی شعبے کے لئے روبوٹس بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا تھا۔ چین میں سال 2017 میں مشین سازی کے شعبے میں استعمال کے لئے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد ربوٹس تیار کئے گئے جو کہ ہر سال 58 فیصد فی سال کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔
· ترقی کے لئے ابھی بھی بہت سے امکانات اور مواقع باقی ہیں جن کے لئے اسی جذبے، محنت اور لگن سے آگے بڑھتے رہنے کی ضرورت ہے۔
· سن 2016 کے ایک جائزے کے مطابق چین میں روبوٹ ورکرز کی تعداد 68 یونٹ فی دس ہزار افراد تھی جبکہ عالمی سطح پر دس ہزار افراد کے ساتھ روبوٹس کی اوسط تعداد 74 ہے اور اس طرح چین کا عالمی رینکنگ میں 23 واں نمبر تھا۔