شہر چھونگ چھنگ کا نوجوان جو اپنے آبائی علاقےمیں کام کے زیادہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے
شہر چھونگ چھنگ کا نوجوان جو اپنے آبائی علاقےمیں کام کے زیادہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے
شہر چھونگ چھنگ کا نوجوان جو اپنے آبائی علاقےمیں کام کے زیادہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے
شہر چھونگ چھنگ کا نوجوان جو اپنے آبائی علاقےمیں کام کے زیادہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے
شہر چھونگ چھنگ کا نوجوان جو اپنے آبائی علاقےمیں کام کے زیادہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے
شہر چھونگ چھنگ کا نوجوان جو اپنے آبائی علاقےمیں کام کے زیادہ موقع فراہم کرنا چاہتا ہے
چین کے جنوب مغربی شہر چھونگ چھنگ کا ضلع فو لینگ "چا چھائی"نامی نمکین اچار کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔یہاں "پھنگ پھو پھو"نامی چا چھائی کی ایک دکان ہے جس کا رقبہ صرف پندرہ مربع میٹر ہے تاہم یہ انٹرنیٹ پر کافی مشہور ہے۔اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ۳۳ سالہ دکاندار پھنگ رونگ گوئی چا چھائی بنانے کے سارے عمل کو موبائل سے انٹرنیٹ پرلائیو دکھاتے اور اس نمکین اچار کو بیچتے ہیں اور اس طرح سے ان کے اچار کی فروخت کوکافی مقبولیت مل رہی ہے۔
پھنگ رونگ گوئی کا کہنا ہے کہ وہ روایتی طریقہ کار سےچا چھائی بناتے ہیں ۔دو ہزار بارہ میں انہوں نے اپنے آبائی گھر لوٹ کر اپنا کاروبار شروع کیا ۔ان کا کارخانہ گاؤں میں صرف تیس مربع میٹر پر قائم ہے۔اس کارخانے کے لیے انہوں نے ڈھائی لاکھ یوان کا بلاسود قرضہ لیا ۔ فروخت کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے انہوں نے وی چیٹ ، علی بابا ،ٹک ٹوک سمیت کافی زیادہ آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال کیا ہے۔ان کا چا چھائی امریکہ ، جاپان ، ملائشیا،سنگاپور،یوکرین اور روس سمیت دوسرے ممالک تک بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔رواں سال فروخت کی کل مالیت پندرہ لاکھ یوان تک پہنچنے کی توقع ہے۔
آن لائن فروخت کے حوالے سے پھنگ رونگ گوئی کے کافی تجربات ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ انگریزی نہیں بولتے ، لیکن موبائل میں ترجمہ کی ایپ کی مدد سے غیرملکی تاجروں سے رابطہ کرتے ہیں ۔ برآمدات کا تمام عمل ایکسپریس کمپنی کے ذریعے ہوتا ہے ۔
پھنگ رونگ گوئی نے بتایا کہ بچپن میں ان کے والدین کو ملازمت کے لیے اپنے علاقے سے باہر دوسرے علاقے میں جاناپڑتا تھا اور وہ اپنے دادا ،دادی کے ساتھ رہتے تھے ۔ اب جب وہ بڑے ہو گئے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بچے اپنا بچپن اپنے ماں باپ کے ساتھ گزاریں ۔اس لیے انہوں نے آبائی گھر واپس آ کر اپنا کاروبار شروع کیا تاکہ نوجوانوں کو اپنےگھر کے قریب ہی ملازمت ملے اور بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ سکیں۔