امریکی سیاسی جماعتوں نے چین کے بارےمیں غلط بیانیے کو قبول کر لیا ہے
امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے تحت جیکسن انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی امور کے سینیئر محقق سٹیفن روچ نے حال ہی میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں کہا کہ اس وقت امریکہ کے سیاسی حلقوں نے چین کے بارے میں غلط بیانیہ قبول کرلیاہے کہ جو چیز بھی امریکہ کے لیے پریشان کن ہے وہ چین کی وجہ سے ہے ۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ اعتماد کی کمی کا شکارامریکہ اپنے غیر متوازن میکرو معیشت کی وجہ سے مصیبت کا شکار ہے اور عالمی قیادت کی حیثیت کھو جانے کے بارے میں فکر مند ہے ۔ اس تناظر میں ریپبلک اور ڈیموکریٹک جماعتوں سمیت دیگر امریکی سیاسی جماعتوں نے چین کے بارےمیں غلط بیانیہ قبول کر لیا ہے۔
مضمون کے مطابق دو ہزار اٹھارہ میں امریکہ کا چین کے علاوہ دنیا کے ایک سو دو ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ برقرار رہا۔ علمی اثاثوں کے بارے میں امریکہ نے چین پر الزام لگایا ہے کہ چین سالانہ امریکہ سے سو بلین سے زیادہ امریکہ ڈالر کے علمی اثاثوں کی چوری کر تا رہا ہے ۔ اس حوالے سے مضمون میں لکھا گیا ہے کہ اعدادوشمار کے حصول کا طریقہ کار مناسب نہیں ہے ۔ متعلقہ اداروں نے منشیات کی اسمگلنگ ، پیشہ ورانہ دھوکہ بازی اور غیر قانونی مالی تبادلے جیسی غیر قانونی سرگرمیوں سےحاصل کردہ ڈیٹا سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر دو ہزار پندرہ میں امریکہ نے ایک ارب پینتیس کروڑ امریکی ڈالر کی نقلی اشیا کو اپنے قبضے میں لیا اور حقائق کو توڑ مروڑ کربتایا گیا کہ ان میں سے ستاسی فیصد حصہ چین سے تعلق رکھتا ہے ۔
علاوہ ازیں امریکی کے تجارتی نمائندہ دفتر نے دو ہزار اٹھارہ میں اپنی ایک رپورٹ میں چین کی مصنوعات پر اضافی ٹیرف کی وجہ یوں بیان کیا کہ امریکہ اور چین کے مشترکہ سرمائے سے چلنے والے اداروں میں فریقین کے درمیان مجبوری کے تحت تیکنیک کی منتقلی کی گئی ۔ لیکن اس حوالے سے بھی واضح ثبوت پیش نہیں کئے گئے۔
کرنسی کی زر مبادلہ کے بارے میں امریکہ کا خدشہ ہے کہ چین آر ایم بی کی قیمت کو کم کر کے غیر معقول مسابقت میں برتری حاصل کرے گا ۔ یہ مسلہ اس وقت تقبریباً ختم ہو گیا ہے ۔ لیکن امریکہ پھر بھی اس مسلے کے بارے میں عدم اطمینان رکھتا ہے ۔ مضمون کےآخر میں کہا گیا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکی حکومت اور عوام حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے چین کے بارے میں غلط بیانیہ قبول کر رہے ہیں ۔